سوال:
میری شادی کو دس سال ہوچکے ہیں، ان دس سالوں میں میرا ایک بچہ بھی نہیں ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ میری بیوی ازدواجی تعلق قائم کرنے میں میرے ساتھ نہیں دیتی ہے، بلکہ مختلف بہانے بناتی رہتی ہے، رات کو کہتی ہے کہ مجھے نیند آرہی ہے، اور صبح کے وقت بیماریوں کا بہانہ بتاتی رہتی ہے، کبھی کہتی ہے کہ آج پیٹ میں درد ہے، کبھی کہتی میرا سر دکھ رہا ہے، الغرض میرا طبعی تقاضا پورا نہیں کیا جارہا ہے، سوال یہ ہے کہ ایسی بیوی کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ بیوی کے ذمہ شوہر کی جسمانی خواہش اور طبعی تقاضے کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے، تو وہ ضرور اس کے پاس آئے، اگرچہ تنور پر روٹی بنارہی ہو ( تب بھی چلی آئے)۔
لہذا اگر بیوی کسی صحیح عذر مثلاً: خاص ایام یا بیماری وغیرہ کے بغیر شوہر کی جسمانی خواہش اور طبعی تقاضے کو پورا نہیں کرے گی، تو سخت گناہگار ہوگی۔
حدیث شریف میں ہے کہ " جب کسی شوہر نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا، اور وہ نہ آئی، پھر اسی طرح غصہ میں اس نے رات گزاری، تو صبح تک سارے فرشتہ اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں"۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بستر پر بلائے، وہ انکار کردے، تو باری تعالی اس سے ناراض رہتا ہے، یہاں تک کہ شوہر اس (بیوی) سے راضی ہوجائے۔
لہذا بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کے جسمانی خواہش اور طبعی تقاضے کو پورا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (456/2، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن قيس بن طلق، عن أبيه طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته، وإن كانت على التنور.
صحیح البخاری: (116/4، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح»
صحیح مسلم: (1060/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده، ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشها، فتأبى عليه، إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى يرضى عنها»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی