سوال:
مفتی صاحب! شادی بیاہ میں لوگ پیسے اور تحائف دیتے ہیں، لیکن جو تحائف نہ دے، اسے بری نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور طعن و تشنیع کرتے ہیں، اور دینے والوں کی فہرست بناتے ہیں، تاکہ ان ہی کو اگلے موقع پر پیسے دیں، اور اس وجہ سے بعض لوگ قرض لے کر پیسے اور تحائف دیتے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ ان تحائف کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: حدیث شریف میں ایک دوسرے کو ہدیہ دینے کی ترغیب آئی ہے، کیونکہ اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے، لہذا فی نفسہ تحفہ دینا جائز ہے، لیکن شادی بیاہ کے موقع پر تحفہ دینے کو لازم سمجھنا، اور نہ دینے والوں کو برا بھلا سمجھنا اور طعن و تشنیع کرنا، یا تحفہ اس نیت سے دینا کہ دوسرا بھی تحفہ دے، درست نہیں ہے، بلکہ یہ تو کسی کی چیز کو اس کی رضامندی کے بغیر لینا ہے، جو کہ جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطنی: (424/3، ط: مؤسسة الرسالة)
عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ ان رسول ﷲ ﷺ قال لایحل مال امری مسلم الا بطیب نفسہ۔
شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: (المادة: 837، 412/1، ط: المکتبة الحنفیة)
تنعقد الہبۃ بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنہا من التبرعات، التبرع لا یتم إلا بالقبض۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی