عنوان: طلاق کے تحریری نوٹس میں تین طلاقوں کا جھوٹا اقرار کرنے سے طلاق کا حکم(4982-No)

سوال: مفتی صاحب ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق کے دو نوٹسز دیتا ہے اور پہلے نوٹس میں وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس نے اپنی زوجہ کو زبانی طور پر تین طلاق دی ہے، حالانکہ حقیقت میں اس نے اپنی بیوی کو زبانی طلاق نہیں دی تھی، اب 2 نوٹسز کے بعد شوہر اور بیوی اللہ تعالٰی کی مرضی سے ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں، اس تناظر میں رہنمائی فرمائیں کہ ایسی صورت میں (جب کہ زبانی طلاق ایک دفعہ بھی نہیں دی گئی، لیکن غصہ میں پہلے نوٹس میں یہ لکھا گیا کہ میں نے اپنی بیوی کو زبانی طلاق دی ہے) شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب: واضح رہے کہ اپنی بیوی کیلئے جس طرح زبان سے طلاق کے الفاظ استعمال کرنے سے طلاق واقع ہوتی ہے، اسی طرح طلاق کا تحریری نوٹس تیار کروانے اور اس پر دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، نیز طلاق کا جھوٹا اقرار کرنے سے بھی قضاءً طلاق واقع ہوجاتی ہے، چنانچہ صورت مسئولہ میں پہلے نوٹس میں تین طلاقوں کا جھوٹا اقرار کیا گیا تھا، لہذا تین طلاقوں کا جھوٹا اقرار کرنے سے قضاءً تین طلاقیں واقع ہوکر حرمت مغلظہ ثابت ہوچکی ہے٬ اور نکاح ختم ہوچکا ہے٬ اب نہ تو رجوع ہوسکتا ہے، نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ البتہ اگر وہ عورت عدت گزارنے کے بعد اپنی مرضی سے کسی شخص کے ساتھ نکاح کرلے٬ اور وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے بعد وہ شخص اپنی مرضی سے اسے طلاق دیدے٬ یا اس شخص کا انتقال ہوجائے٬ تو اس کی عدت پوری ہونے کے بعد اگر یہ عورت اپنے سابق شوہر کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے٬ تو فریقین باہمی رضامندی سے٬ گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مشکوۃ المصابیح: (باب الخلع و الطلاق، 284/2، ط: قدیمی)
"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ثلاث جدهن جد وهزلهن جد: النكاح والطلاق والرجعة. رواه الترمذي وأبو داود وقال الترمذي: هذا حديث حسن غريب"

الدر المختار: (کتاب الطلاق، 236/3، ط: سعید)
ولواقر بالطلاق کاذبا اوھازلا و قع قضاء لا دیانۃ۔

خلاصۃ الفتاوی: (75/2)
وفی الأصل اذا قال طلقتک أمس وھو کاذب کان طلاقا فی القضاء ۔

حاشیة الطحطاوی علی الدر المختار: (113/2)
الإقرار بالطلاق کاذبا یقع بہ الطلاق قضاء لا دیانۃ

رد المحتار: (مطلب فی الطلاق بالکتابة، 246/3، ط: سعید)
"وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو ... ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقراراً بالطلاق وإن لم يكتب؛ ولو استكتب من آخر كتاباً بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها، وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخةً وابعث بها إليها".

بدائع الصنائع: (فصل في حكم الطلاق البائن، 187/3، ط: سعید)
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلاتحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً "

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1561 Jul 29, 2020
talaaq kay tehreeri notes mai teen talaqon ka jhoota iqraar karne say talaaq ka hukum, Ruling / Order of Divorce by Falsely Admitting Triple / three Talaq in Written Notice of Divorce

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.