سوال:
مفتی صاحب ! کیا انسان اپنے لیے کی ہوئی (فرض، واجب اور نفلی) عبادت یا نیک عمل کسی مردہ کو بخش سکتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ تمام نفلی عبادات (خواہ بدنی ہو یا مالی) کا ایصال ثواب زندہ و مرحومین دونوں کو کیا جا سکتا ہے، چاہے عمل کے شروع میں ہی ایصالِ ثواب کی نیت کرلے یا عمل کرنے کے بعد نیت کرلے، بہر صورت ایصال ثواب کرنا درست ہے، البتہ فرائض اور واجبات کے ایصالِ ثواب کے بارے ميں حضرات علماء کرام کی آراء مختلف ہیں، بعض علماء کرام اس کو جائز سمجھتے ہیں، جبکہ بعض اس کے قائل نہیں ہیں، البتہ مفتٰی به قول یہ ہے کہ نوافل کی طرح فرائض و واجبات میں بھی ایصال ثواب کرنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح العقائد: (ص: 172)
وفی دعاء الاحیاء للاموات وصدقتھم ای صدقۃ الاحیاء عنھم ای عن الاموات نفع لھم ای للاموات …ولنا ما ورد فی الاحادیث الصحاح من الدعا للاموات خصوصا فی صلاۃ الجنازۃ وقد توارثہ السلف فلو لم یکن للاموات نفع فیہ لما کان لہ معنی وقال علیہ السلام مامن میت تصلی علیہ امۃ من المسلمین یبلغون مائۃ کلھم یشفعون الا شفعوا فیہ وعن سعد بن عبادۃ انہ قال یا رسول اﷲ ان ام سعد ماتت فای الصدقۃ افضل قال الماء فحفر بیرا وقال ھذا لام سعد۔
رد المحتار: (243/2، ط: سعید)
وفی البحر: من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابه لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع، ثم قال و بهذا علم انه لا فرق بين ان يكون المجعول له ميتا او حي. و الظاهر انه لا فرق بين أن ينوي به عن الفعل للغير او يفعله لنفسه ثم بعد ذلك يجعل ثوابه لغيره. لاطلاق كلامهم. وانه لا فرق بين الفرض والنفل اه. وفي الجامع الفتاوى: وقيل لا يجوز في الفرائض اه.
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: (رقم الفتوی:143903200008)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی