سوال:
مفتی صاحب ! عدتِ وفات اور عدتِ طلاق میں فرق کیوں ہے؟
جواب: مطلقہ اور بیوہ کی عدت کا حکم اور دونوں کا فرق قرآن کریم میں واضح طور پر موجود ہے٬ ایک مسلمان کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ رب العزت کا حکم ہے٬ باقی اس کی حکمتوں کے پیچھے پڑنا مطلوب نہیں ہے٬ کیونکہ احکم الحاکمین کی تمام حکمتوں کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں٬ تاہم محض سمجھنے کی خاطر (نہ کہ عمل کرنے یا نہ کرنے کی غرض سے) حکمت معلوم کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے٬ چنانچہ عدت کے مسئلے کے اندر اصل علت تو اللہ رب العزت کا حکم ہے٬ باقی اس میں مصلحت یہ ہے کہ تاکہ اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ اسے حمل ٹہرا ہے یا نہیں٬ اور شوہر کی وفات کی صورت میں غم اور سوگ کا بھی عنصر ہے٬ اس لئے اس کی عدت نسبتاً زیادہ مقرر کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 234)
والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجا یتربصن بانفسھن أربعۃ أشھر و عشرا....الخ
و قوله تعالیٰ: (البقرۃ، الایة: 228)
والمطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلثة قروء....الخ
تفسیر ابن کثیر: (البقرۃ، الایة: 234، ط: دار السلام، ریاض)
"وقد ذکر سعید بن المسیب وأبو العالیۃ وغیرہما: أن الحکمۃ في جعل عدۃ الوفاۃ أربعۃ أشہر وعشرًا لاحتمال اشتغال الرحم علی حمل، فإذا انتظر بہ ہٰذہ المدۃ، ظہر إن کان موجودًا کما في جاء في حدیث ابن مسعود الذي في صحیحین وغیرہا: إن خلق أحدہم یجمع في بطن أمہ أربعین یومًا نطفۃً، ثم یکون علقۃ مثل ذٰلک، ثم یکون مضغۃ مثل ذٰلک، ثم یبعث إلیہ الملک فینفخ فیہ الروح، فہٰذہ ثلاث أربعینات بأربعۃ أشہر، والاحتیاط بعشر بعدہا لما قد ینقص بعض الشہور،
قال سعید بن أبي عروبۃ عن قتادۃ: سألت سعید بن المسیب ما بال العشر؟ قال: فیہ ینفخ الروح"
الدر المختار: (مطلب في النکاح الفاسد و الباطل، 199/5، ط: زکریا)
"غیر الآیسۃ والحامل فإن عدتہما بالأشہر والوضع الحیض للموت أي موت الواطي وغیرہ کفرقۃ أو متارکۃ؛ لأن عدۃ ہٰؤلاء لتعرف براء ۃ الرحم وہو بالحیض"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی