سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ والد صاحب اور ان کے بیٹے کے مکانات ایک ساتھ تھے۔ والد صاحب نے مکان بنانا چاہا تو بیٹے نے کہا کہ میرے مکان کی جگہ جو کہ تین فٹ ہے، آپ اپنے استعمال میں لے لیں اور اس کے بدلے میرے مکان کی اگلی دیوار بنادیں۔ والد صاحب نے وہ دیوار بناکر جگہ اپنے مکان میں شامل کرلی۔ اب بیٹے اور والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے اور بیٹے کی بیوی وہ مکان فروخت کرکے دوسری جگہ منتقل ہوچکی ہے۔ اب وہ مرحوم کے دوسرے بیٹوں سے اس جگہ کی قیمت کا مطالبہ کررہی ہے تو ان کا یہ مطالبہ درست ہے یا نہیں؟
جواب: صورت مسئولہ میں بیٹے نے اپنی دیوار بنانے کے عوض تین فٹ زمین کا اپنے والد سے تبادلہ کیا ہے، جس کی وجہ سے والد صاحب اس تین فٹ کے مالک ہوگئے ہیں، لہٰذا اب مرحوم بیٹے کی بیوی کا اپنے دیوروں سے زمین کے تین فٹ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطنی: (424/3، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
عن أنس بن مالك , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه»
الھندیۃ: (167/2، ط: دار الفکر)
لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق.
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (343/38، ط: دار السلاسل)
المقايضة لغة: مأخوذة من القيض، وهو العوض. وفي حديث ذي الجوشن: " وإن شئت أن أقيضك به "، أي: أبدلك به وأعوضك عنه.
ويقال: قايضه مقايضة، إذا عاوضه، وذلك إذا أعطاه سلعة وأخذ عوضها سلعة . والمقايضة في اصطلاح الفقهاء: هي بيع السلعة بالسلعة. ونصت المادة من مجلة الأحكام العدلية على أن بيع المقايضة هو: بيع العين بالعين: أي مبادلة مال بمال غير النقدين.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی