سوال:
ہمارے معاشرے میں یہ رواج ہے کہ بہنوں کو ان کا شرعی حصہ نہیں دیا جاتا، اگر کوئی بہن اپنے باپ کی جائیداد میں سے حصہ مانگ لے، تو اس کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے، اور باپ کی جائیداد صرف بیٹوں میں تقسیم کردی جاتی ہے، شریعت کی رو سے اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ والدین کے چھوڑے ہوئے مال میں جس طرح ان کی نرینہ اولاد کا حق ہوتا ہے، اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس میں شرعی حق ہوتا ہے، والدین کے فوت ہوجانے کے بعد ان کے مال پر بیٹوں کا تنِ تنہا قبضہ کرلینا، اور بہنوں کو ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے، بھائیوں پر لازم ہے کہ بہنوں کو ان کا حق وحصہ اس دنیا میں دے دیں، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا، جو بالکل بھی آسان نہیں ہوگا۔
احادیثِ مبارکہ میں اس پر بڑی وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی ظلماً لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔
دوسری حدیثِ مبارکہ میں ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوٰۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، ص: 254)
عن سعید بن زید رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺ من اخذ شبراً من الارض ظلماً فانہ یطوقہ‘ یوم القیامۃ من سبع ارضین متفق علیہ۔
و فیها ایضاً: (ص: 266)
عن انس قال قال رسول اﷲ ﷺمن قطع میراث وارثہ قطع اﷲ میراثہ من الجنۃ یوم القیمۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی