سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص سمندر میں ڈوب کر مر جائے، تو کیا وہ شہید کے حکم میں ہوگا؟ اور اس کی لاش نکالنے کے بعد اس کے غسل اور کفن کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ڈوب کر مرنے والا شہید کے حکم میں ہوگا، اور اس کو شہید کا ثواب حاصل ہوگا، لیکن وہ دنیوی احکامات میں شہید نہیں کہلائے گا، لہٰذا اس کو عام میت کی طرح غسل بھی دیا جائے گا اور کفن بھی پہنایا جائے گا، اور نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفقه الاسلامی و ادلته: (1588/2)
فالشہداء ثلاثۃ، شہید فی حکم الدنیا والآخرۃ: وھو شہید المعرکۃ اما حکم الدنیا فلا یغسل ولا یصلی علیہ عند الجمہور کما ابنت واما حکم الاخرۃ فلہ ثواب خاص وھو الشہید الکامل الشہادۃ۔وشہید فی حکم الدنیا فقط وھو عند الشافعیۃ من قتل فی قتال الکفار بسببہ وقدغل من الغنیمۃ اوقتل مدبراً او قاتل ریاءً اونحوہ ای لایغسل ولا یصلی علیہ ولا ثواب لہ فی الاخرۃ۔شہید فی حکم الاخرہ فقط کا لمقتول ظلماً من غیر قتال والمبطون اذا مات بالبطن والمطعون…. والغریق، والغریب، وطالب العلم … وحکم ھؤلاء الشہداء فی الدنیا ای شہداء الاخرۃ ان الواحد منھم یغسل ویکفن ویصلی علیہ اتفاقاً کغیرہ من الموتی اما فی الاخرۃ فلہ ثواب الاخرۃ فقط ولہ اجر الشہداء یوم القیامۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی