سوال:
مفتی صاحب!
کیا بیٹوں کے رشتوں میں لڑکی کی تصاویر مانگنا اور لڑکی کے ساتھ لڑکے کی بات کروانا (رشتہ ہونے سے پہلے) درست ہے؟
نیز لڑکی اور لڑکے کے رشتوں میں کن باتوں کو مدِنظر رکھنا چاہیے؟
جواب: واضح رہے کہ نکاح سے قبل لڑکا، لڑکی ایک دوسرے کیلیے اجنبی ہوتے ہیں، ان دونوں کا آپس میں ملناجلنا، ہنسی مذاق کرنا، جیساکہ ہمارے معاشرے میں منگنی کے بعد بلاحجاب خلوت میں ملنے، آپس میں ہنسی مذاق کرنے اور ساتھ شاپنگ کرنے کا عام رواج ہے، یہ سب امور ناجائز ہیں، لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہئیے، البتہ اگر نکاح کا ارادہ ہو اور جملہ اوصاف میں طرفین (لڑکا، لڑکی) کے سرپرستوں کا اتفاق ہوجائے تو نکاح سے پہلے لڑکا، لڑکی آپس میں ایک دوسرے کو ایک آدھ مرتبہ دیکھ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ شریعت نے فطری جذبے کا لحاظ رکھتے ہوئے کچھ بنیادی اور اہم باتوں میں جانبین سے برابری کو ملحوظ رکھا ہے، یعنی لڑکا اور لڑکی نسب، مال، دِین داری ، شرافت اور پیشے میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں، جسے "کفو" کہتے ہیں، لہذا رشتہ کرتے وقت ان باتوں کا لحاظ رکھنا چاہئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجة: (رقم الحدیث: 1864، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن محمد بن مسلمة، قال: خطبت امرأة، فجعلت أتخبأ لها، حتى نظرت إليها في نخل لها، فقيل له: أتفعل هذا وأنت صاحب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؟ فقال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "إذا ألقى الله في قلب امرئ خطبة امرأة، فلا بأس أن ينظر إليها"۔
بدائع الصنائع: (122/5، ط: دار الکتب العلمیة)
وكذا إذا أراد أن يتزوج امرأة فلا بأس أن ينظر إلى وجهها وإن كان عن شهوة لأن النكاح بعد تقديم النظر أدل على الألفة والموافقة الداعية إلى تحصيل المقاصد على ما قال النبي - عليه الصلاة والسلام - «للمغيرة بن شعبة - رضي الله عنه - حين أراد أن يتزوج امرأة اذهب فانظر إليها فإنه أحرى أن يؤدم بينكما» دعاه - عليه الصلاة والسلام - إلى النظر مطلقا وعلل - عليه الصلاة والسلام - بكونه وسيلة إلى الألفة والموافقة.
(وأما) المرأة فلا يحل لها النظر من الرجل الأجنبي ما بين السرة إلى الركبة ولا بأس أن تنظر إلى ما سوى ذلك إذا كانت تأمن على نفسها والأفضل للشاب غض البصر عن وجه الأجنبية وكذا الشابة لما فيه من خوف حدوث الشهوة والوقوع في الفتنة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی