سوال:
مفتی صاحب ! جو زیور یا جائیداد وغیرہ عورت کی ملکیت ہو یا اس کو جہیز میں ملے ہوں، تو کیا اس کو فروخت کرنے کے لیے شوہر کی اجازت لینی ضروری ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شرعا ہر صاحب ملکیت کو اپنی ملکیت میں تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے، لہذا بیوی کو بھی اپنی ملکیت میں تصرف کرنے کا اختیار ہے، شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہے۔
البتہ چونکہ میاں بیوی کا باہمی تعلق ورشتہ رفیق حیات کا ہوتا ہے اور ان کے تمام کام آپس میں باہمی رضامندی سے ہوتے ہیں، لہذا مناسب یہ کہ بیوی اپنے شوہر کی رضامندی اور مشورہ حاصل کر کے تصرف کرے، تاکہ آپس میں رنجشیں پیدا نہ ہوں، اور ایک ساتھ زندگی کا سفر گزارنے میں مشکلات پیدا نہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تفسیر البیضاوی: (7/1)
"المالک ہو المتصرف في الأعیان المملوکۃ کیف شاء من الملک....الخ".
شرح المجلة لسلیم رستم باز: (المادة: 1162)
"ولکل واحد منہم أن یتصرف فی حصتہ کیف شاء".
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب النکاح، باب المھر، 155/3، ط: سعید)
"جہز ابنتہ بجہاز وسلمہا ذلک لیس لہ الاسترداد منہا، ولا لورثتہ بعدہ إن سلمہا ذلک في صحتہ بل تختص بہ، وبہ یفتي".
و فیه أیضا: (مطلب فی دعوی الأب أن الجھاز عاریة، 157/3، ط: سعید)
"المختار للفتوی أن یحکم بکون الجہاز ملکا لا عاریۃ؛ لأنہ الظاہر الغالب -إلی- والمعتمد البناء علی العرف کما علمت".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی