سوال:
ایک عمرہ کرنے کے بعد مدینہ چلے گئے، واپسی پر دوسرے عمرے کے لیے مدینہ سے ہی نیت کی، لیکن راستے میں حرم تک پہنچنے سے پہلے شرعی عذر کی وجہ سے عمرہ نہی کر سکے اور عمرہ کیے بغیر پاکستان واپسی ہوگئی۔
پوچھنا یہ کہ ایسی صورت میں عمرہ کی قضاء اور دم لازم آئے گا یا نہیں؟
جواب: عمرے کی نیت سے احرام باندھنے کے بعد اگر کوئی شرعی عذر پیش آجائے، تو اس وقت تک احرام نہیں اتار سکتے، جب تک حرم کی حدود میں اس کی طرف سے ایک بکری یا دنبہ ذبح نہ کردیا جائے، پس جب حدود حرم میں جانور ذبح ہوجائے، اس کے بعد احرام کھولنا جائز ہوگا، اور بعد میں اس عمرے کی قضا بھی لازم ہوگی۔
صورت مسئولہ میں آپ کے ذمے بکری یا دنبہ کی صورت میں ایک دم لازم ہے، جس کو حدودِ حرم میں ذبح کروانا ضروری ہے، اس لیے آپ فوری طور پر وہاں کسی سے رابطہ کرکے اپنی طرف سے ایک بکری یا دنبہ ذبح کروائیں، اس کے بعد ہی آپ احرام کی پابندی سے آزاد ہونگی، اور بعد میں اس عمرے کی قضا بھی لازم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
ارشاد الساری: (باب الاحصار، ص: 578- 588، ط: الامدادیة)
اذا احصر المحرم بحجۃ او عمرۃ واراد التحلل يجب عليه ان یبعث الهدي وهو شاۃ وما فوقها وتجوز البدنۃ عن سبعۃ او يبعث ثمن الهدي ليشتري به الهدي و يامر احدا بذلك و فيذبح في الحرم.... ثم انه لا يحل ببعث الهدى (بمجردہ) ولا بوصوله الى الحرم حتى يذبح في الحرم۔
و فیه ایضاً: (باب الاحصار، ص: 601- 602، ط: الامدایة)
اذا حل المحصر بالذبح فان كان احرامه للحج فعليه قضاء عمرة وحجة وان كان قارنا فعليه قضاء حجة وعمرتين ويخير ان شاء يقضي بقران او افراد وان کان معتمرا فعليه عمرۃ لا غير۔
الھندیة: (الباب الثانی عشر فی الاحصار، 319/1)
المحصر: من احرم ثم منع عن مضي فى موجب الاحرام، سواء كان المنع من العدو او المرض، او الحبس او الکسر او القدح او غیرھا من الموانع من اتمام ما احرم بہ، حقیقۃ او شرعاً....واما حکم الاحصار فھو: ان یبعث بالهدي او بثمنہ لیشتری بہ ھدیا ویذبح عنہ ومالم یذبح لایحل، وھو قول عامۃ العلماء۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی