سوال:
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
ایک شخص کی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا، اس شخص نے دوسری شادی کی، پہلی بیوی سے تین بیٹیاں تھیں اور دوسری بیوی اپنے ساتھ ایک بیٹا لے کر آئی تھی، پھر دوسری بیوی سے ایک بیٹی پیدا ہوئی۔
اس شخص نے اپنی زندگی اپنی وراثت کے دو حصہ کر دیے، ایک حصہ اپنی پہلی بیوی سے ہونے والی تین بیٹیوں کو دیا اور دوسرا حصہ اپنے سوتیلے بیٹے کو دیا، جو اس شخص کی دوسری بیوی اپنے ساتھ لے کر آئی تھی، لیکن اپنی دوسری بیوی سے ہونے والی اپنی ہی سگی بیٹی کو کچھ بھی نہیں دیا۔
اب دوسری بیوی سے پیدا ہونے والی بیٹی اپنے سوتیلے بھائی سے مطالبہ کر رہی ہے کہ اسے بھی والد کی میراث میں سے حصہ دیا جائے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا والد کا یہ عمل درست تھا؟ نیز کیا اس بیٹی کا اپنے سوتیلے بھائی سے مطالبہ کرنا درست ہے؟
جواب: صورت مسئولہ میں اگر اس شخص نے اپنی تینوں بیٹیوں اور سوتیلے بیٹے کو جائیداد نام کرنے کے ساتھ ساتھ قبضہ اور ملکیت بھی دیدی تھی، تو شرعاً یہ ہبہ(گفٹ) مکمل ہوگیا، اور تینوں بیٹیاں اور سوتیلا بیٹا اپنے اپنے حصہ کے مالک بن گئے، چوتھی بیٹی کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، اگرچہ والد کا سگی بیٹی کو محروم کرنے کا یہ عمل قطعاً ناجائز اور غیر منصفانہ تھا۔
واضح رہے کہ مذکورہ بالا حکم زندگی میں تقسیم کرنے والی جائیداد کے بارے میں ہے، البتہ جو جائیداد تقسیم نہیں کی تھی، والد کے مرنے کے بعد تمام شرعی ورثاء اپنے حصص کے بقدر حقدار ہونگے۔
نوٹ: تینوں بیٹیاں اور سوتیلا بیٹا اگر مناسب سمجھیں تو والد کو اس غیر منصفانہ تقسیم کے گناہ سے بچانے کے لیے اپنے اپنے حصے سے اپنی اس بہن کو بھی کچھ دے کر راضی کرلیں، تاکہ ان کے والد کو آخرت میں پریشانی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (کتاب الوقف، 444/4، ط: سعید)
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل".
مجلة الأحكام العدلية: (230/1)
"كل يتصرف في ملكه كيف ما شاء".
الھندیة: (الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ و ما لا یجوز، 378/4، ط: رشیدیة)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی