سوال:
مفتی صاحب ! جب میری عمر 12 سال تھی، اس وقت دادا نے ایک دکان خرید کر میرے اور تایا کے بیٹے کے نام کردی تھی، لیکن سارے تصرفات دادا کے پاس ہی تھے، آٹھ سال پہلے وہ دکان دادا نے والد صاحب کی نگرانی میں دیدی تھی، پھر دادا نے تقریبا چار سال پہلے نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر وہ دکان والد سے لے کر کرائے پر دیدی تھی، اب دادا کی دماغی حالت صحیح نہیں ہے، والد صاحب نے مجھے اور تایا کے بیٹے کو عدالت لے جا کر دستخط کروا کر وہ دکان کرایہ دار کو فروخت کردی، اور والد صاحب نے آدھی رقم خود رکھ لی اور آدھی تایا کو دیدی اور مجھے کسی کو کچھ بتانے سے منع کردیا، یہاں تک کہ دادا کو بھی نہیں معلوم کہ وہ دکان والد صاحب نے فروخت کردی ہے۔
جبکہ دادا نے اس دکان کی رجسٹری میرے اور تایا کے بیٹے کے نام کی تھی اور نہ کسی قسم کا تصرف دیا تھا۔
اب تمام صورت حال کو دیکھ کر آپ بتائیں کہ یہ ہبہ تام تھا یا نہیں؟
یہ معاملات درست ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو معاملات کی درستگی کس کے ذمہ ہے؟
جواب: سوال میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق چونکہ آپ کے دادا نے زمین صرف نام کی تھی، ملکیت اور کسی قسم کے تصرف کا اختیار آپ کو نہیں دیا تھا، اور اس زمین کا کرایہ بھی دادا خود وصول کرتے رہے، لہذا ان کی طرف سے ہبہ (گفٹ) کی ہوئی جائیداد کا کرایہ وصول کرنے سے، آپ کا اس جائیداد کے ہبہ پر قبضہ تام نہیں ہوا تھا، اس لیے وہ جائیداد شرعاً آپ کے دادا کی ملکیت میں برقرار ہے، لہذا آپ کے والد کا اس زمین کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے، تاہم اگر آپ کے والد نے وہ زمین فروخت کردی ہے تو اس کی رقم دادا کے انتقال کے بعد دادا کے شرعی ورثاء میں ان کے حصص کے بقدر تقسیم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"۔
شرح المجلة لسلیم رستم باز: (المادۃ: 837)
تنعقد الہبۃ بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنہا من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی