سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ
مفتی صاحب! قبرستان کی جگہ اونچی نیچی ہے، جہاں والد صاحب کی قبر ہے، اکثر پانی جمع ہو جاتا ہے۔
اور پانی کی نکاسی کا کوئی معاملہ نہیں ہے، پانی جب تک خشک نہ ہو، قبریں ڈوبی رہتی ہیں۔
ایسی صورت میں کیا ہم قبر کی اطراف میں چار دیواری کرسکتے ہیں؟
یا قبر کو اطراف سے پکا کر سکتے ہیں؟ یا چھت ڈال سکتے ہیں؟
رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ قبر کو پختہ بنانا یا اس کے اوپر چھت تعمیر کرنا جائز نہیں ہے، البتہ صرف دائیں بائیں سے پتھر اس طرح لگادینا کہ اصل قبر (یعنی جتنے حصے میں میت دفن ہے) کچی مٹی کی ہو، اور اردگرد پتھر یا بلاک وغیرہ سے منڈیر نما بنا دیا جائے، یا معمولی سا احاطہ بنا دیا جائے، یا اردگرد زمین پر پختہ فرش کردیا جائے، تاکہ قبر کا نشان باقی رہے، اس کی اجازت ہے، بشرطیکہ سادہ پتھر استعمال کیا جائے، زیب وزینت والا پتھر نہ ہو ، نیز آگ پر پکی ہوئی اینٹیں بھی نہ لگائی جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 1341، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: لما اشتكى النبي صلى الله عليه وسلم ذكرت بعض نسائه كنيسة رأينها بأرض الحبشة يقال لها: مارية، وكانت أم سلمة، وأم حبيبة رضي الله عنهما أتتا أرض الحبشة، فذكرتا من حسنها وتصاوير فيها، فرفع رأسه، فقال: أولئك إذا مات منهم الرجل الصالح بنوا على قبره مسجدا، ثم صوروا فيه تلك الصورة أولئك شرار الخلق عند الله.
بدائع الصنائع: (320/1، ط: دار الکتب العلمیة)
ويكره تجصيص القبر وتطيينه وكره أبو حنيفة البناء على القبر وأن يعلم بعلامة، وكره أبو يوسف الكتابة عليه ذكره الكرخي لما روي عن جابر بن عبد الله عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «لا تجصصوا القبور ولا تبنوا عليها ولا تقعدوا ولا تكتبوا عليها» ؛ ولأن ذلك من باب الزينة ولا حاجة بالميت إليها؛ ولأنه تضييع المال بلا فائدة فكان مكروها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی