سوال:
آج کل جیلوں میں قیدیوں کو پانی نہیں دیا جاتا ہے یا اگر دیتے بھی ہیں تو صرف پینے کے لئے ہوتا ہے، اگر اس سے وضو کرلیں تو پینے کے لئے پانی نہیں بچے گا، سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: اگر ایسی جیل ہو جہاں قیدیوں کو وضو اور غسل کے لئے پانی نہیں دیا جاتا ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھنا جائز ہے، ان نمازوں کو بعد میں پانی ملنے کی صورت میں یا رہائی کے بعد امام ابو یوسفؒ کے قول کے مطابق لوٹانا واجب نہیں ہوگا، ضرورت کے وقت امام ابو یوسفؒ کے اس قول پر فتویٰ دینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
اور اگر وہاں قیدیوں کے لیے غسل اور وضو کے لیے پانی کا انتظام ہو تو ایسی صورت میں وضو اور غسل کر کے نماز پڑھنا ضروری ہے، تیمم کرکے نماز پڑھنے سے نماز ادا نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
غنیة المستملی: (ص: 74، ط: سھیل اکیدمی، لاھور)
(المحبوس في السجن اذا منع عن الطهارة بالماء يصلي بالتيمم ويعيد وقال ابویوسف لا يعيد) قید السجن اما باعتبار الغالب او للاشارة الى كونه في المصر فان محل الخلاف ما اذا كان محبوسا في المصر اما لو كان محبوسا في موضع في الصحراء فانه لايعيد بالاتفاق كذا في المبسوط اما اذا حبس في موضع في المصر فعند ابی یوسف لا يعيد لانه عاجز عن استعمال الماء فصار كالخائف من عدو ونحوه الخ
بدائع الصنائع: (46/1، ط: سعید)
واما شرائط الركن فانواع: منها ان لا يكون واجدا للماء قدر ما يكفي الوضوء او الغسل في الصلاة التي تفوت الی خلف وما هو من اجزاء الصلاة لقوله تعالى فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا شرط عدم وجدان الماء لجواز التيمم
المبسوط للسرخسی: (256/1، ط: عباس احمد الباز مكة المكرمة)
قال (واذا كان مع رفيقه ماء فعليه ان يسأله)...فانه سأله فأبى أن يعطيه الا بالثمن فان لم يكن معه ثمنه یتیمم لعجزه عن استعمال الماء وان كان معه ثمنه فان اعطاه بمثل قيمته في ذلك الموضع او بغبن يسير فليس له ان يتيمم وان ابي ان يعطيه الا بغبن فاحش فله ان يتيمم
الدر المختار: (414/1، ط: سعید)
( واذا لم يجد) المكلف المسافر (ما يزيل به نجاسته او يقللها لبعده میلا او لعطش (صلی معها) اوعاريا ( ولا اعادة عليه )
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی