سوال:
مفتی صاحب ! میں اپنا مکان بنوارہا ہوں، تقریباً کام مکمل ہوگیا ہے، میرے سارے پیسے خرچ ہوگئے ہیں، ابھی مکان بنانے کے لیے کچھ رقم کی ضرورت ہے، میرے ایک دوست نے رقم دینے کا وعدہ کیا ہے، لیکن وہ اس پر نفع مانگ رہا ہے، میں نے اس سے کہا کہ مجھے مکان بنانے کے لیے جو سامان چاہیے، آپ مجھے وہ سامان دلوادیں، اور اس مال پر جو مناسب نفع ہو، وہ نفع اور وقت طے کرلیں، میں وعدہ کے مطابق اس وقت میں اصل رقم اور منافع دے دونگا۔
براہ کرم شریعت کی روشنی میں بتائیں کیا اس طرح معاملہ کرنا درست ہے؟
جواب: صورت مسئولہ میں آپ کو دوست جتنی رقم ادھار دے گا، اس کو اسی کے بقدر وصول کرنے کا حق ہے، قرض دے کر اس پر نفع لینا سود ہے، شریعت میں سودی قرضہ لینا اور دینا ناجائز اور حرام ہے، جس سے ہر مسلمان کو مکمل اجتناب کرنا لازم ہے۔
تاہم جواز کی ایک صورت یہ ممکن ہے کہ آپ اپنے دوست سے اس طرح معاملہ کریں کہ آپ کا دوست اپنے نام سے آپ کی ضرورت کا تعمیراتی سامان مارکیٹ سے خرید کر اس پر قبضہ کرلے، پھر وہی سامان آپ کو کچھ نفع رکھ کر قسطوں پر فروخت کردے، اور قسط میں تاخیر کی صورت میں کوئی سود وغیرہ نہ لے، تو یہ صورت شرعاً جائز ہوگی، کیونکہ اب یہ صورت "بیع مرابحہ" کے حکم میں ہوگئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 275)
أحل اﷲ البیع وحرم الربوا....الخ
السنن الکبری للبیہقي: (باب کل قرض جر منفعة، رقم الحدیث: 11092، 274/8، ط: دار الفکر)
عن فضالۃ بن عبید صاحب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ قال: کل قرض جر منفعۃ فہو وجہ من وجوہ الربا۔
شرح المجلة: (المادة: 245، 127/1، ط: مکتبة إتحاد، دیوبند)
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح … یلزم أن تکون المدۃ معلومۃ في البیع بالتأجیل والتقسیط۔
بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ: (ص: 7)
أما الأئمۃ الأربعۃ وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع المؤجّل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع مؤجّل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی