سوال:
آج سے تقریباً تین سال پہلے میں نے اپنی بیوی کے بارے میں یہ الفاظ اپنی بیوی کے بارے میں اس کی غیرموجودگی میں کہے تھے کہ ’’یہ میری طرف سے فارغ ہے اور شام تک قانونی پرچہ دے دوں گا۔‘‘ یہ بات میں نے طلاق دینے کی نیت سے کہی تھی، لیکن یہ بات ڈائریکٹ بیوی سے نہیں کہی تھی، پھر بعد میں معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا اور میں نے کوئی قانونی پرچہ بھی نہیں بنوایا تھا اور نہ ہی میرے گھر والوں نے اس مسئلہ سے متعلق کسی سے معلوم کیا تھا۔ اس لیے اس کے بعد ہم دونوں تین سال سے میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہ رہے ہیں، اب دوبارہ جب یہ سب باتیں ہوئیں تو اس میں میں نے یہ الفاظ کہے: (۱) میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔ (۲) میری طرف سے فارغ ہے۔ چونکہ مجھے تین سال قبل والی بات یاد نہیں تھی، میرے گھر والوں نے مجھے دن تاریخ کے حساب سے یاد دلایا تو مجھے بات یاد آگئی۔ اب میرے گھر والے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ سب طلاق واقع ہوچکی ہیں۔ اب مجھے یہ بتائیں کہ یہ کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں، اور اب ہمارا آپس میں رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ شوہر کا یہ کہنا (یہ میری طرف سے فارغ ہے) ہمارے عُرف میں الفاظِ کنایہ ہے، طلاق کی نیت سے کہنے سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی تھی، شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار نہیں تھا، البتہ عدت یا عدت کے بعد طرفین کی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرسکتے تھے، معاملہ کو رفع دفع کرکے بغیر نکاحِ جدید کے تین سال میاں بیوی کی حیثیت سے رہے ہیں، یہ حرام فعل کا ارتکاب کیا ہے، لہٰذا اس پر سچے دل سے توبہ و استغفار کریں، چونکہ تین سال سے آپس میں زوجیت کا رشتہ ختم تھا، اسی وجہ سے مزید دو طلاقیں ''(۱) میں تجھے طلاق دیتا ہوں (۲)میری طرف سے فارغ ہے'' واقع نہیں ہونگی، البتہ اب بھی طرفین کی رضامندی اور نئے مہر کے ساتھ بغیر حلالہ کے نکاح کرسکتے ہیں، لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ شوہر کو اب صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (374/1، ط: دار الفکر)
(الفصل الخامس في الكنايات) لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية.
و فیھا ایضاً: (348/1، ط: دار الفکر)
(أما تفسيره) شرعا فهو رفع قيد النكاح حالا أو مآلا بلفظ مخصوص كذا في البحر الرائق
(وأما ركنه) فقوله: أنت طالق. ونحوه كذا في الكافي
(وأما شرطه) على الخصوص فشيئان (أحدهما) قيام القيد في المرأة نكاح أو عدة
الھدایۃ: (257/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها " لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی