سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی ملکیت میں جو پیسے تھے، وہ وراثت کی مد میں تقسیم کرنے ہیں۔ ورثاء میں ایک بیوہ، چار بیٹے، اور تین بیٹیاں ہیں۔ رقم 16850 روپے ہے۔ اللّٰہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
جواب: مرحوم کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو اٹھاسی (88) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو گیارہ (11)، ہر ایک بیٹے کو چودہ (14)، اور ہر ایک بیٹی کو سات (7) حصے ملیں گے۔
اس تقسیم کی رو سے سولہ ہزار آٹھ سو پچاس (16850) میں سے بیوہ کو دو ہزار ایک سو چھ روپے اور پچیس پیسے (2106,25)، ہر ایک بیٹے کو دو ہزار چھ سو اسی روپے اور اڑسٹھ پیسے (2680,68) اور ہر ایک بیٹی کو ایک ہزار تین سو چالیس روپے اور چونتیس پیسے (1340,34) ملیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ ....الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی