سوال:
مفتی صاحب! کیا اپنے ایسے بھائی کو جس کے پاس نہ سونا ہو، نہ سیونگ ہو، گھر بھی کرایہ کا ہو، اور آمدنی بھی اچھی نہ ہو، زکوۃ دے سکتے ہیں؟
جواب: اگر بھائی مستحقِ زکوۃ ہو، تو اس کو زکوۃ دینا جائز ہے، بشرطیکہ اس بھائی کے کھانے پینے کے اخراجات زکوۃ دینے والے بھائی یا بہن کے ساتھ مشترک نہ ہوں، اور اگر کھانے پینے کے اخراجات مشترک ہوں تو پھر زکوۃ دینا جائز نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ جس غیر سید مسلمان کے پاس سونا، چاندی، مال تجارت، نقدی یا ضروریات اصلیہ (روزمرہ استعمال کی اشیاء) سے زائد سامان ہو، اور ان پانچوں میں سے بعض یا کل کا مجموعہ یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت، اگر چاندی کے نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) تک نہیں پہنچتی ہے یا نصاب کو تو پہنچتی ہے، لیکن وہ قرض دار ہے، اور قرض منہا کرنے کے بعد وہ بقدر نصاب مالیت کا مالک نہیں رہتا، تو ایسا شخص زکوة کا مستحق ہے، اس کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (50/2، ط: سعید)
ویجوز دفع الزکاۃ إلی من سوی الوالدین والمولودین من الأقارب ومن الإخوۃ والأخوات وغیرہم لانقطاع منافع الأملاک بینہم۔
الدر المختار مع رد المحتار: (347/2- 348، ط: دار الفکر)
(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان۔
(قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی