سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنی بیوی، بچوں، والد، والدہ اور دو بہنوں کے ساتھ ایک مکان میں رہتا ہوں، مکان میرے والد صاحب کے نام پر ہے اور اس مکان میں تین فلور ہیں، ہر فلور میں ایک فلیٹ بنا ہوا ہے، پہلے فلور میں میری والدہ اور دو بہنیں رہتی ہیں، گراؤنڈ فلور میں میرے والد رہتے ہیں اور تیسرے فلور میں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہوں اور جس میں میرے بیوی بچوں کا خرچہ، راشن، کچن اور بیت الخلاء وغیرہ سب الگ ہے، اب میری بیوی مجھ سے لڑ جھگڑ کر چلی گئی ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ مجھے الگ گھر لے کر دو، تو میں واپس آؤں گی، جبکہ میرے والدین کی عمر اکہتر اور پچہتر سال اور اور دو بہنوں کی عمر اڑتالیس اور پچاس سال ہے اور میں اپنے والدین اور بہنوں کا اکیلا واحد کفیل ہوں، ان کا دیکھ بھال خدمت وغیرہ کرتا ہوں تو کیا اس صورت میں میری بیوی کا الگ گھر کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز ہے؟ کیا میں اس مطالبہ کو پورا کرنے کا پابند ہوں؟
(۲) میری بیوی نے مجھ سے علیحدہ ہو کر عدالت میں کیس کردیا اور عدالت نے مجھ پر میرے بچوں کا نفقہ لازم کیا ہے کہ میں اپنے بچوں کا نفقہ خرچہ اپنی بیوی کو دوں، کیا اس طرح نفقہ لینا شریعت میں جائز ہے؟ اور یہ نفقہ اگر بچوں کے خرچ علاوہ کسی اور چیزوں میں خرچ کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات اور سسرالی رشتے کی مضبوطی اخلاقیات، اور باہمی ہمدردی کے ساتھ ہی قائم رہ سکتی ہے، جیسے بیوی پرشوہر کے حقوق اور اس کے والدین کا احترام وتوقیر لازم ہے، اسی طرح شوہر کے ذمہ بھی بیوی کے حقوق لازم ہیں، اورشوہر کے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ آنے والی بہو کو اپنی حقیقی بیٹی سمجھتے ہوئے اس سے وہی سلوک وبرتاؤ رکھیں جو حقیقی بیٹی سے رکھتے ہیں۔
اس سلسلے میں جانبین کو حقوق کے مطالبے کے بجائے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرناچاہیے، بیوی کو چاہیے کہ اپنی ساس کی ہر بات برداشت کرے، اور شوہر کے والدین کی خدمت کرے ، یہ میاں بیوی دونوں کی سعادت اور اخروی نیک بختی ہے، اس لیے میاں بیوی حتی الامکان اسی کی کوشش کریں کہ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت کریں، اگر ان سے کوئی سخت بات بھی ہوجائے تو اس پر صبر کریں اوراللہ سے اجر کی امید رکھیں۔
اس تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جواب درج ذیل ہیں۔
۱۔ واضح رہے کہ شوہر پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کے نان ونفقہ اور رہائش کا اس طرح انتظام کرے کہ وہ کسی کی محتاج نہ رہے ، اور رہائش کے لئے ایسا مقفل کمرہ ، باورچی خانہ اور بیت الخلاء ہونا ضروری ہے، جس میں کسی دوسرے کا اشتراک اور عمل دخل نہ ہو، لہذ صورت مسئولہ کے مطابق اگر شوہر نے ایسا مستقل فلیٹ، بیوی کو دیا ہوا ہے، جس میں مقفل کمرہ ، باورچی خانہ اور بیت الخلاء مہیا ہوں ، تو اس طرح کے انتظام سے شوہر پر واجب سکنی(رہائش ) کی ذمہ داری اَدا ہوجائے گی اور ایسی صورت میں بیوی کے لئے الگ مکان کے مطالبہ کی اجازت نہیں ہے۔
۲۔ جوعورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر میکے وغیرہ چلی جائے، وہ شرعاً ”ناشزہ“ (نافرمان) کے حکم میں ہے، اور ناشزہ کا نان و نفقہ شوہر کے ذمہ نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنے دن بیوی شوہر کی مرضی کے بغیر اپنے میکے میں رہے گی، اتنے دنوں کا نان و نفقہ شوہر پر لازم نہیں ہوگا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں عورت کا نان و نفقہ اتنے دنوں تک شوہر کے ذمے لازم نہیں ہے۔
۳۔ واضح رہے کہ اولاد جب تک نابالغ ہو یا بالغ ہو، لیکن کسی عذر شرعی کی وجہ سے کمانے کے قابل نہ ہو، اسی طرح غیرشادی شدہ لڑکیاں چاہے بالغہ ہوں یا نابالغہ، جب تک ان کی شادی نہ ہو، اس وقت تک ان کا نفقہ(خرچہ) والد پر ہے، چاہے میاں بیوی ساتھ ہوں یا ان میں جدائی ہوگئی ہو ،لہذا صورت مسئولہ میں اگر اولاد نابالغ ہے یا بالغ ہے، لیکن کسی عذر شرعی کی وجہ سے کمانے کے قابل نہیں ہے، یا غیر شادی شدہ لڑکیاں ہیں تو ان کا نان نفقہ (خرچہ) باپ پر اس کی حیثیت کے مطابق لازم ہے، اب والد چاہے تو خود خرچ کرے یا کسی کو اپنا وکیل بنائے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر آپ کو اپنی بیوی پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ بچوں کے خرچے کی رقم بچوں پر خرچ کرے گی، تو آپ کسی اور کو خرچ کرنے کا وکیل بنائیں، اور بیوی کے لیے مذکورہ رقم کو بچوں کے خرچ کے علاوہ دوسرے کام میں استعمال کرنا جا ئز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (600/3، ط: دار الفکر)
بيت منفرد من دار له غلق زاد في الاختيار والعيني ومرافق ومراده لزوم كنيف ومطبخ وينبغي الإفتاء به.
رد المحتار: (600/3، ط: دار الفکر)
قوله ( وفي البحر عن الخانية ) عبارة الخانية فإن كانت دار فيها بيوت وأعطى لها بيتا يغلق ويفتح لم يكن لهاأن تطلب بيتا آخر إذا لم يكن ثمة أحد من أحماء الزوج يؤذيها ا ه
قال المصنف في شرحه فهم شيخنا أن قوله ثمة إشارة للدار لا البيت لكن في البزازية أبت أن تسكن مع أحماء الزوج وفي الدار بيوت إن فرغ لها بيتا له غلق على حدة وليس فيه أحد منهم لا تمكن من مطالبته ببيت آخر
بدائع الصنائع: (23/4، ط: دار الکتاب الاسلامی)
ولو أراد الزوج أن يسكنها مع ضرتها أو مع أحمائها كأم الزوج وأخته وبنته من غيرها وأقاربه فأبت ذلك؛ عليه أن يسكنها في منزل مفرد؛ لأنهن ربما يؤذينها ويضررن بها في المساكنة وإباؤها دليل الأذى والضرر ولأنه يحتاج إلى أن يجامعها ويعاشرها في أي وقت يتفق ولا يمكنه ذلك إذا كان معهما ثالث حتى لو كان في الدار بيوت ففرغ لها بيتا وجعل لبيتها غلقا على حدة قالوا: إنها ليس لها أن تطالبه ببيت آخر۔
الهندية: (545/1، ط: دار الفکر)
وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منہ ۔
المبسوط للسرخسی: (223/5، ط: دار المعرفة)
والذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثا؛ لأن النساء عاجزات عن الكسب؛ واستحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه. وإن كانوا ذكورا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنا، أو أعمى، أو مقعدا، أو أشل اليدين لا ينتفع بهما، أو مفلوجا، أو معتوها فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب، وهذا إذا لم يكن للولد مال فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله؛ لأنه موسر غير محتاج واستحقاق النفقة على الغني للمعسر باعتبار الحاجة إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر بخلاف نفقة الزوجة، فإن استحقاق ذلك باعتبار العقد لتفريغها نفسها له فتستحق موسرة كانت، أو معسرة فأما الاستحقاق هنا باعتبار الحاجة فلا يثبت عند عدم الحاجة.
الھندیة: (560/1، ط: دار الفکر)
نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة۔۔۔۔ وبعد الفطام یفرض القاضی نفقة الصغار علی قدر طاقة الأب وتدفع إلی الأم حتی تنفق علی الاولاد، فإن لم تکن الأم ثقة تدفع إلی غیرھا لینفق علی الولد.
فتاوی عثمانی: (478/2، ط: مکتبة معارف القرآن)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی