عنوان: حد سے زیادہ نفع کا حکم (594-No)

سوال: حضرت ! میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی جاننے والے کی دکان پر جاتا ہے، اُس پر بھروسہ کرکے کہ میرا جاننے والا دوکاندار مجھ کو کوئی چیز جو اُس کو چاہیے، مہنگی نہیں دیگا، لیکن وہ دکاندار اُس کے بھروسے کا فائدہ آٹھا تے ہوئے اُس کو 1000 والی چیز 5000 کی دیدے، تو کیا اُس دکان والے کا یہ عمل دہوکہ دہی ہوگا اور یہ اضافی کمائی حرام ہوگی ؟

جواب: واضح رہے شریعت میں نفع کی کوئی حد مقرر نہیں، لہذا فریقین باہمی رضامندی سے جس قیمت پر اتفاق کرلیں، وہی درست ہے، البتہ دکاندار کا خریدار کی ناواقفیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، حد سے زیادہ نفع وصول کرنا شرعاً مکروہ ہے۔
خاص طور سےاپنے جاننے والوں کیساتھ ایسا کرنا ، خلاف مروت بھی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیۃ: (161/3، ط: دار الفکر)
ومن اشترى شيئا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لا يتغابن الناس فيها فإني لا أحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين.

الھدایۃ: (377/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
قوله عليه الصلاة والسلام: "لا تسعروا فإن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق" ولأن الثمن حق العاقد فإليه تقديره۔۔إلا إذا تعلق به دفع ضرر العامة على ما نبين.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 384 Jan 12, 2019
had se zaida munafa ka hukum, order of excess profit

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.