سوال:
مفتی صاحب! میرے ایک رشتہ دار سمندر میں ڈوبنے کی وجہ سے مر گئے تھے، ابھی ایک دن پہلے ان کی نعش سمندر سے نکالی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ان کو غسل دیا جائے گا یا ڈوبنے کی وجہ سے ان کا غسل ہوچکا ہے؟
جواب: پانی میں ڈوب کر مرنے والے شخص کو پانی سے نکال لینے کے بعد غسل دینا فرض ہے، غسل کے لئے پانی میں ڈوبنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اس لئے کہ زندوں پر میت کو غسل دینا فرض ہے، اور اس ڈوبنے میں زندوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، البتہ اگر میت کو پانی سے نکالتے وقت غسل کی نیت سے تین مرتبہ پانی میں غوطہ دے دیا جائے، تو اس سے میت کا غسل ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (187/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
والغريق يغسل ثلاثا عند أبي يوسف وعن محمد إذا نوى الغسل عند الإخراج من الماء يغسل مرتين، وإن لم ينو يغسل ثلاثا وفي رواية يغسل مرة واحدة اه. وفي فتح القدير الظاهر اشتراط النية فيه لإسقاط وجوبه عن المكلف لا لتحصيل طهارته هو
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی