سوال:
مفتی صاحب! 2012 میں میری بیوی نے کورٹ سے خلع لے لیا تھا، جبکہ میں نے خلع سے پہلے اور نہ ہی خلع کے بعد کوئی طلاق دی تھی، اور میری بیوی نے ابھی تک کسی سے شادی بھی نہیں کی ہے، اب وہ مجھ سے دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہے، کیا میں اس لڑکی کو تجدیدِ نکاح کے ذریعے دوبارہ اپنے نکاح میں لا سکتا ہوں یا پھر حلالہ کرانا پڑے گا؟
جواب: واضح رہے کہ اگر خلع کی تمام شرائط کا خیال رکھتے ہوئے خلع لیا جائے تو ایسا خلع معتبر ہے، اور اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے، اس صورت میں سائل اگر اس عورت سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے، اور عورت بھی راضی ہو تو ایسی صورت میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (441/3، ط: دار الفکر)
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (7015/9، ط: دار الفکر)
وقد اعتبر الحنفية ركن الخلع هو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول
البناية شرح الهداية: (505/5)
"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى."
الھندیۃ: (472/1، ط: ماجدیة)
"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها يف العدة وبعد انقضائها."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی