سوال:
مفتی صاحب ! بیٹے کے لیے "محمد زاویان حمید" نام رکھنا کیسا ہے؟
جواب: "زاویان" عربی زبان میں "زاو" کی تثنیہ بن سکتا ہے، جس کا معنی "موڑنے والا، لپیٹنے والا یا جمع کرنے والا" ہے، یہ نام رکھنا جائز تو ہے، لیکن کوئی خاص مطلب نہ ہونے کی وجہ سے مناسب نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ اس نام کے بجائے بچے کا نام انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کے نام پر یا کوئی بھی اچھے معنیٰ والا نام رکھ لیں۔
ابوداؤد شریف کی حدیث ہے:
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں، کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ :’’بے شک قیامت کے دن تمہیں تمہارے اور تمہارے باپوں کے نام سے پُکارا جائے گا، اس لیے تم اپنے اچھے نام رکھا کرو‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 4955، ط: دار ابن حزم)
عن أبي الدرداء قال: قال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: تُدعون یوم القیامة بأسمائکم وأسماء آبائکم فأحسنوا أسمائکم․
القاموس الوحید: (ص: 728، ط: ادارة اسلامیات)
1. زوا الشی: اکٹھا کرنا، جمع کرنا۔
2. زوی الشی: لپیٹنا، سمیٹنا، لینا۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی