سوال:
(1) کیا بیوی کے ساتھ کسی بھی طرح کے جنسی تعلقات کی اجازت ہے؟
(2) کیا شوہر اور بیوی کے لئے جنسی کھلونے استعمال کرنے میں کوئی پریشانی ہے؟
(3) اگر ہم بیوی کے پیچھے سیکس کریں تو کیا ہوگا؟ کیا اس سے نکاح متاثر ہوتا ہے؟
برائے مہربانی رہنمائی کریں۔
جواب: (1) واضح رہے کہ بیوی کے ساتھ جماع کرنے کے سلسلے میں شریعت نے کچھ حدود بتائی ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
(1) حیض کی حالت میں بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنا ناجائز ہے۔
(2) بیوی کے پستان کا دودھ پینا ناجائز ہے۔
(3) شوہر کا بیوی کی شرمگاہ کو چومنا، زبان لگانا، یا اپنی شرمگاہ کو بیوی کے منہ میں داخل کرنا مکروہ اور بے حیائی کا عمل ہے، اس سے اجتناب کیا جائے۔
(4)جماع کے وقت شرمگاہ پر نظر نہیں ڈالنی چاہیے، اور نہ ہی جانور کی طرح بالکل ننگا ہوکر جماع کرنا چاہیے۔
(2) جی ہاں! جنسی تسکین حاصل کرنے کی غرض سے مذکورہ کھلونے استعمال کرنا ناجائز اور گناہ ہے، شریعت نے جنسی تسکین حاصل کرنے کا محل بیوی اور باندی کو بنایا ہے، اس کے علاوہ شہوت پوری کرنے کے لئے کسی اور محل کا استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔
(3) بیوی کے ساتھ پیچھے کی راہ سے ہمبستری کرنا حرام ہے، اور حدیث کی رو سے لعنت کا باعث ہے، لہذا اس سے بچنا ضروری ہے، ورنہ سخت گناہ ہوگا، تاہم اس غیر فطری عمل سے نکاح نہیں ٹوٹتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 222)
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَo
مشکوٰۃ المصابیح: (ص: 276)
وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «ملعون من أتى امرأته في دبرها» . رواه أحمد، وأبو داود.
الدر المختار: (211/3، ط: سعید)
(ولم يبح الإرضاع بعد مدته)؛ لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح، شرح الوهبانية.
و فیہ ایضا: (399/2)
"أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعًا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلًا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضًا ويدل أيضًا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى: {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال: فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اه فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم."
الھندیۃ: (372/5ط: رشیدیہ، کوئٹہ)
إذا أدخل الرجل ذكره في فم امرأته قد قيل يكره وقد قيل بخلافه كذا في الذخيرة۔
المحیط البرھانی: (134/8)
إذا ادخل الرجل ذکرہ فی فم امرأتہ یکرہ لأنہ موضع قراءۃ القرآن فلا یلیق بہ إدخال الذکر بہ وقد قیل بخلافہ ایضاً۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی