سوال:
اگر کوئی شخص سودی کاروبار کرتا ہو اور وہ اس سودی کاروبار کی آمدنی سے حج کرلے، تو کیا اس کا حج ادا ہو جائے گا؟
جواب: سود کی رقم سے حج کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ حرام مال سے کی گئی عبادت کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا اور نہ ہی اس پر ثواب ملتا ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب کوئی شخص حرام مال سے حج کرتا ہے اور لبیک پکارتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "لا لبيك ولا سعدیک وحجك هذا مردود عليک" یعنی تیری لبیک کی پکار ہمیں قبول نہیں اور تیرا یہ حج مسترد ہے۔
البتہ اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص سود کی رقم سے حج کرلے گا، تو اس کا حج ادا ہو جائے گا، لیکن وہ حج مقبول نہ ہونے کی وجہ سے ثواب سے محروم رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کنز العمال: (27/5، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
من حج بمال حرام فقال: لبيك اللهم لبيك؛ قال الله عز وجل: لا لبيك ولا سعديك وحجك مردود عليك.
البحر الرائق: (332/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
وهذا كله في حج الفرض أما في حج النفل فطاعة الوالدين أولى مطلقا كما صرح به في الملتقط ويشاور ذا رأي في سفره في ذلك الوقت لا في نفس الحج فإنه خير وكذا يستخير الله في ذلك ويجتهد في تحصيل نفقة حلال فإنه لا يقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث مع أنه يسقط الفرض عنه معها
فتاوی رحیمیۃ: (37/8، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی