سوال:
میرے ایک رشتہ دار سیکنڈ ہینڈ موبائل بیچنے کا کام کرتے ہیں، اور وہ بسا اوقات کسٹمر کو دھوکا دے کر اسے غلط موبائل بیچ دیتے ہیں، یا صحیح موبائل بول کر عیب دار موبائل دے کر اس سے زیادہ رقم وصول کرلیتے ہیں، سوال یہ کہ اگر وہ اپنے اس مال سے حج ادا کرنا چاہیں، تو کیا ان کا حج ادا ہو جائے گا؟
جواب: واضح رہے کہ حلال طریقہ سے مال حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، البتہ اگر کسی کے پاس ایسا مال ہو، جس میں حلال طریقہ سے کمائے ہوئے مال کے ساتھ ساتھ حرام طریقے سے کمایا ہوا مال بھی ملا ہوا ہو، تو ایسا مال "مشتبہ مال" کہلاتا ہے، اور ایسے مال سے حج کرنا بہتر نہیں ہے، لہذا جس کے پاس ایسا مال ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ کسی غیر مسلم سے سود کے بغیر قرضہ لے لے، اور اس سے حج ادا کرے، اور وہ قرضہ مال مشتبہ سے لوٹا دے، تو انشاء اللہ امید ہے کہ ایسا کرنے سے اس کا حج بلا کراہت صحیح ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (220/1، ط: دار الفکر)
إذا أراد الرجل أن يحج بمال حلال فيه شبهة فإنه يستدين للحج ويقضي دينه من ماله كذا في فتاوى قاضي خان في المقطعات
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی