سوال:
آج کل اخبارات اور روز نامے، ہفتہ وار اور ماہنامے وغیرہ رسائل کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، اور اس میں کئی قسم کی جہالت پائی جاتی ہے، مثلا: یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اخبار کتنا لمبا اور چوڑا ہوگا، اسی طرح اس کے صفحات کی تعداد متعین نہیں ہوتی اور یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کونسا مضمون پڑھنے والے کے لئے فائدے مند ہے اور کونسا نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ اخبارات میں اشتہارات وغیرہ بھی ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ان جہالتوں کے باوجود اخبارات اور رسائل کی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ اس جہالت کی وجہ سے خرید وفروخت فاسد ہوجاتی ہے، جو جھگڑے کی طرف لے جانے والی ہو، جبکہ صورت مسئولہ میں مذکورہ جہالتیں اس قبیل سے نہیں ہیں، لہذا اخبارات اور رسائل کی خرید فروخت کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
حجۃ اللہ البالغۃ: (169/2، ط: دار الجیل)
وما كل جهالة تفسد البيع، فإن كثيرا من الأمور يترك مهملا في البيع، واشتراط الاستقصاء ضرر ولكن المفسد هو المفضي إلى المنازعة
فتاوی رحیمیہ: (200/9، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی