سوال:
جب کسی کے رشتہ دار حج کرکے لوٹتے ہیں، تو لوگ ان کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ حاجیوں کا استقبال کرنے کا کیا حکم ہے، یہ کوئی رسم ہے یا اس کی شریعت میں کوئی بنیاد موجود ہے؟
جواب: حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حدیث منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جب تم کسی حاجی سے ملو تو سلام کرو، اس سے مصافحہ کرو اور اپنے لئے دعائے مغفرت کراؤ، اس سے پہلے کہ گھر پہنچ جائے، بے شک وہ بخشے ہوئے ہیں"، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاجیوں کا استقبال کرنا باعث ثواب ہے۔
اور حضرت حسن سے روایت ہے کہ جب حاجی حج کے لئے روانہ ہوں تو ان کو وداع ( چھوڑنے کے لئےجاؤ اور دعائے خیر کے لئے ان سے تلقین (درخواست) کرو اور جب حج سے آئیں تو ان سے ملو اور مصافحہ کرو، قبل اس کے کہ دنیاوی کاروبار میں لگ کر وہ گناہ میں مبتلا ہوجائیں، بے شک ان کے ہاتھ میں برکت ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے دعا فرمائی "اللهم اغفر للحاج ولمن استغفر له الحاج" (اے اللّٰه! حاجی کی مغفرت فرما اور اس کی بھی، جس کے حق میں حاجی دعائے مغفرت فرمائے)۔
لہذا حاجیوں کے استقبال کے لئے جانا چاہیے، البتہ عورتوں کا حاجیوں کے استقبال کے لئے جانے میں اگر بے پردگی، مردوں کے ساتھ اختلاط یا دیگر مفاسد پائے جاتے ہوں، تو عورتوں کا حاجیوں کے استقبال کے لئے جانا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسند احمد: (39/5، ط: دار الحدیث)
عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله -صلي الله عليه وسلم-: "إذا لقيت الحاج فسلم عليه وصافحه، ومره أن يستغفر لك، قبل أن يدخل بيته، فإنه مغفور له".
السنن الکبری للبیهقي:(حدیث نمبر:10381،ط:دار الکتب العلمیة)
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﺤﺎﻓﻆ , ﺃﻧﺎ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺼﻴﺮﻓﻲ , ﺑﻤﺮﻭ , ﺛﻨﺎ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺷﺎﻛﺮ , ﺛﻨﺎ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﻤﺮﻭﺭﻭﺫﻱ , ﺛﻨﺎ ﺷﺮﻳﻚ , ﻋﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ , ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺯﻡ , ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ , ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ:" اﻟﻠﻬﻢ اﻏﻔﺮ ﻟﻠﺤﺎﺝ ، ﻭﻟﻤﻦ اﺳﺘﻐﻔﺮ ﻟﻪ اﻟﺤﺎﺝ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی