سوال:
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے کہ ایک شخص کے چار بیٹے پہلی بیوی سے اور تین بیٹے اور دو بیٹیاں دوسری بیوی سے ہیں۔
پہلی بیوی فوت شدہ ہے، جبکہ دوسری حیات ہے، تمام بچوں کی شادی ہو چکی ہے اور ان کے بچے بھی ہیں، پہلی بیوی کے سب سے بڑے بیٹے کو اسکے بیوی بچے کسی دماغی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے چھوڑ جاتے ہیں، والد وصیت کرتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائیداد کا شرعی حصہ اسکے بڑے بیٹے کو تو ملے گا، لیکن بڑے بیٹے(جسکا دماغی توازن درست نہیں) کی وفات کی صورت میں، اس (بیٹے)کا حصہ اس(وصیت کنندہ) کی پہلی بیوی کے باقی تین بیٹوں میں برابر تقسیم ہو گا، والد بڑے بیٹے کی زندگی میں فوت ہو جاتا ہے اور کچھ عرصہ بعد بڑا بیٹا بھی فوت ہو جاتا ہے، اب بڑے بیٹے کے بیوی اور بچے اپنے والد کی وراثت میں اپنا شرعی حق مانگ رہے ہیں، ایسی صورت میں والد کی جانب سے جاری کردہ وصیت کی شریعت میں حیثیت کیا ہے؟ جزاک اللہ
جواب: میراث میں اولاد اور بیوی کا حصہ قرآن پاک سے ثابت ہے، ان کو میراث سے بے دخل کرنے کی وصیت لغو ہے، لہذا صورت مسئولہ میں ذہنی بیمار فوت شدہ بیٹے کی میراث اس کے ورثہ (بیوی بچوں) میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 11- 12)
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ-لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِۚ-......الخ
وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌۚ-فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ۔.....الخ
تکملة رد المحتار: (505/7، ط: سعید)
"الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی