سوال:
السلام علیکم، جناب مفتی صاحب ! اللہ رب العزت نے خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ جو اپنی شرم گاہ چھپایے علاوہ اپنی بیوی اور لونڈی کے تو ان پر ملامت نہیں۔
اسی طرح بخاری کی صحیح حدیث ہے، جس میں حضرت عائشہ رضی الله عنها نے ایک ہی برتن سے اکھٹے غسل کا ذکر کیا ہے، اسی طرح سنن ابی داود 4017 اور ترمذی 2769 میں حدیث ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیه وسلم نے اپنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ ستر چھپانے کا حکم دیا ہے۔
جبکہ کچھ احادیث ہیں، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ جب بیوی کے پاس جاؤ تو بلکل گدھے کی طرح برہنہ ہوکر نہ جاؤ ۔ یہ حدیث ضعیف ہے، اسی طرح اور بھی احادیث ہیں، لیکن وہ ضعیف ہیں۔
کسی صحیح حدیث میں اس طرح کی ممانعت نہیں آئی ہے، بہت سارے علماء بھی خاوند اور بیوی کے ایک دوسرے کے ستر کو دیکھنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاوند اور بیوی کے درمیان کوی ستر نہیں۔
میری معلومات کے مطابق بہتر اور ادب یہی ہے کہ دوران جماع اور سونے کے دوران شرم گاہ کو ڈھانپ لے، لیکن اگر کوئی شرم گاہ کو نہیں ڈھانپتا تو بھی جائز ہے۔
اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ اگر خاوند اور بیوی دونوں جماع سے پہلے مکمل طور پر برہنہ ہوکر بوس و کنار یا جماع کریں یا جماع کے بعد مکمل طور پر برہنہ ہوکر اکھٹے سوئیں تو کیا یہ عمل جائز ہے یا نا جائز؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ تینوں اعمال جائز ہیں٬ البتہ ادب اور حیاء کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر بھی مکمل برہنہ نہ ہوا جائے٬ جیسا کہ متعدد احادیث مبارکہ میں اس کی تعلیم دی گئی ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المومنون، الآیة: 5- 6)
وَالَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَo اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَo
سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 2800)
"عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إياكم والتعري فإن معكم من لا يفارقكم إلا عند الغائط وحين يفضي الرجل إلى أهله، فاستحيوهم وأكرموهم"
سنن ابن ماجة: (کتاب النکاح، باب التستر عند الجماع)
"عن عتبة بن عبد السلمي قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا أتی أحدکم أہلہ فیستتر ولا یتجرد تجرد الْعَیْرَیْن"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی