سوال:
آج کل عام طور پر بیچنے والے یہ دھوکہ دیتے ہیں، کسی چیز کو اصلی بتاتے ہیں، حالانکہ وہ نقلی ہوتی ہے اور اسے کسی خریدار کے ہاتھ فروخت کردیتے ہیں، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: کسی نقلی چیز کو اصلی بتا کر فروخت کرنا ناجائز اور حرام ہے اور ایسی صورت میں خریدار کو حق حاصل ہوگا کہ وہ نقلی چیز بیچنے والے کو واپس کرکے اصلی چیز وصول کرے اور بیچنے والے پر شرعا لازم ہوگا کہ وہ خریدار سے نقلی چیز وصول کرکے اسے اصلی چیز ادا کرے، البتہ اگر نقلی چیز کو استعمال کرلیا گیا ہو یا وہ ختم ہونے کے قریب ہو، تو اس صورت میں اصلی اور نقلی چیز کی قیمت میں جو فرق ہوگا، اتنی رقم وہ بیچنے والے سے وصول کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (36/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
وإذا اطلع المشتري على عيب في المبيع فهو بالخيار، إن شاء أخذه بجميع الثمن وإن شاء رده" لأن مطلق العقد يقتضي وصف السلامة، فعند فوته يتخير كي لا يتضرر بلزوم ما لا يرضى به، "
و فیھا ایضا: (38/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
قال: "وإذا حدث عند المشتري عيب فاطلع على عيب كان عند البائع فله أن يرجع بالنقصان ولا يرد المبيع"؛ لأن في الرد إضرارا بالبائع؛ لأنه خرج عن ملكه سالما، ويعود معيبا فامتنع، ولا بد من دفع الضرر عنه فتعين الرجوع بالنقصان
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی