سوال:
مفتی صاحب ! دو لوگوں کے ایگریمنٹ کے دوران ایک شخص یہ بولے کہ اگر فلاں فلاں بات تم نے کہی تھی، تو میں اپنی بیوی کو چھوڑتا ہوں، اس کے جواب میں دوسرا شخص بولے کہ ہاں ! تم نے یہ بات کہی تھی، تو کیا طلاق واقع ہوجائے گی؟
جواب:
صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص اپنی بات میں سچا ہے، تو ایسی صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے، کیونکہ "چھوڑتا ہوں" کے الفاظ ہمارے عرف میں طلاق صریح ہے، اب اگر شوہر چاہے، تو عدت گزرنے سے پہلے پہلے اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے، یا عدت گزرنے کی صورت میں ازسرنو نکاح کر سکتا ہے، دونوں صورتوں میں شوہر کو دو طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (291/4)
وإن أضاف الطلاق إلی الزمان الماضي وکانت المرأة في ملکہ یقع الطلاق للحال
رد المحتار: (299/3)
فإن سرحتك كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال: " رهاكردم " أي سرحتك، يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضاً، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت۔
الھندیۃ: (الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن و إذا و غيرهما، 420/1)
وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك
فتاویٰ عثمانی: (344/2، ط: مکتبة معارف القرآن)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی