سوال:
مفتی صاحب ! ایصالِ ثواب کی شرعی حیثیت اور مسنون طریقہ بتادیں۔
جواب: تمہید
مسئلہ "ایصال ثواب" کے بارے میں مختلف قسم کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، بعض لوگ سرے سے اس کو جائز ہی نہیں سمجھتے اور بعض لوگ اس کو جائز تو سمجھتے ہیں، لیکن اس میں مختلف قسم کی رسوم ایجاد کر لی ہیں، جو کہ بدعت کے زمرے میں آتی ہیں، اس وجہ سے اس مسئلہ کے بارے میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے، زیر نظر تحریر میں اختصار کے ساتھ اس مسئلہ کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایصال ثواب کی حقیقت
انسان کو اصل اجر تو اس کے اپنے اعمال ہی کا ملے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کی اپنے مؤمن بندوں پر خاص شفقت ہے کہ وہ ایک شخص کی دعا دوسرے کے حق میں قبول فرماتے ہیں، ایک شخص کے نیک عمل کے ثواب میں دوسرے شخص کو بھی پہلے شخص کی درخواست پر شریک فرما دیتے اور مزید کرم یہ کہ پہلے شخص کے ثواب میں بھی کمی نہیں فرماتے، چنانچہ زندہ لوگوں کی طرف سے اپنی نفلی عبادات بدنیہ و مالیہ کا ثواب اپنے مرحومین کو ھدیہ کرنا "ایصالِ ثواب" (ثواب پہنچانا) کہلاتا ہے، اس کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان شخص کوئی عبادت مثلاً: دعا و استغفار، ذکر و تلاوت، روزہ وحج اور صدقہ وخیرات وغیرہ میں سے ادا کر کے یہ کہے: اے اللہ! میرے اس نیک عمل پر آپ اپنی رحمت سے مجھے جو ثواب عطا فرمائیں گے، وہ ثواب فلاں شخص کو بھی پہنچا دیجیے۔
ایصال ثواب کے بارے میں جمہور اھل السنة و الجماعة کا موقف
جمہور اھل السنة و الجماعة کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان میت کو اس کی وفات کے بعد زندہ لوگوں کی طرف سے ان کے نیک اعمال مثلاً: دعا و استغفار، ذکر و تلاوت، روزہ وحج اور صدقہ وخیرات، ان سب کا ثواب پہنچتا ہے اور ان کو ایصال ثواب کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ اور مستحسن بھی ہے۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے فتاویٰ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ فَلَا نِزَاعَ بَیْنَ عُلَمَائِ السُّنَّۃِ وَ الْجَمَاعَۃِ فِي وُصُولِ ثَوَابِ الْعِبَادَاتِ الْمَالِیَّۃِ کَالصَّدَقَۃِ وَ الْعِتْقِ کَمَا یَصِلُ إلَیْہِ أَیْضًا الدُّعَاءُ وَ الِاسْتِغْفَارُ وَ الصَّلَاۃُ عَلَیْہِ صَلَاۃَ الْجَنَازَۃِ وَالدُّعَائُ عِنْدَ قَبْرِہِ".
(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ :۲۴ /۳۶۶)
ترجمہ:
چنانچہ اہل السنت والجماعت کے تمام ائمہ کرام کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ مالی عبادات کا ثواب بھی مرحومین کو پہنچتا ہے، جس طرح کہ دعا، استغفار اور جنازے کی نماز کا اور قبر کے پاس دعا کا ثواب پہنچتا ہے۔
’’ وَکَذٰلِکَ یَنْفَعُہُ.... وَالدُّعَاءُ وَالِاسْتِغْفَارُ لَہُ بِلَا نِزَاعٍ بَیْنَ الْأَئِمَّۃِ".
(مجموع الفتاوی:۲۴/۳۱۵)
ترجمہ:
اسی طرح میت کے حق میں دعا و استغفار کرنے سے اس کو باتفاق ائمہ نفع ہوتا ہے۔
مزید تحریر فرماتے ہیں:
"وَتَنَازَعُوا فِي وُصُولِ الْأَعْمَالِ الْبَدَنِیَّۃِ : کَالصَّوْمِ وَالصَّلَاۃِ وَالْقِرَاء َۃِ وَالصَّوَابُ أَنَّ الْجَمِیعَ یَصِلُ إلَیْہ".
ترجمہ:
علماء اہل السنت والجماعت کا عبادات بدنیہ کے بارے میں اختلاف ہوا ہے، جیسے روزہ ، نماز، قراءت وغیرہ کے بارے میں، لیکن صحیح یہ ہے کہ ان تمام عبادات کا ثواب پہنچتا ہے۔
(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ :۲۴ /۳۶۶)
اسی طرح علامہ ابن قیم رحمہ اللہ "کتاب الروح" میں تحریر فرماتے ہیں:
"وبالجملۃ فأفضل ما یہدی إلی المیت العتق والصدقۃ والاستغفار لہ والدعاء لہ والحج عنہ، و أما قراء ۃ القرآن وإہداؤہا لہ تطوعاً بغیر أجرۃ فہذا یصل إلیہ کما یصل ثواب الصوم والحج".
ترجمہ:
خلاصہ یہ کہ میت کے لیے جس کا ہدیہ دینا افضل ہے وہ غلام کا آزاد کرنا، صدقہ کرنا، اس کے لیے استغفار و دعا کرنا اور اس کی جانب سے حج کرنا ہے، رہا قرآن کی تلاوت اور اس کا بلا اجرت میت کو بھیجنا، تو یہ بھی اس کو پہنچتا ہے جس طرح کہ روزے اور حج کا ثواب پہنچتا ہے۔
(کتاب الروح: ص۴۹۷، بتحقیق بسام علی سلامۃ العموش)
مشہور محقق عالم ڈاکٹر وھبہ الزحیلی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
والمعتمد فی المذاہب الأربعة أن ثواب القراء ة یصل إلی الأموات؛ لأنہ ہبة ودعاء بالقرآن الذی تتنزل الرحمات عند تلاوتہ، وقد ثبت فی السنة النبیوة وصول الدعاء والصدقة للمیت، وذلک مجمع علیہ".
(التفسیر المنیر للدکتور وہبة الزحیلی رحمہ اللّٰہ: ۱٤/ ١٤٤)
ترجمہ:
چاروں فقہی مسالک (حنفیہ، حنابلہ، مالکیہ اور شوافع) میں یہ بات مسلم ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب مرحومین کو پہنچتا ہے، کیونکہ یہ ایک ھدیہ اور قرآن کریم (جس کی تلاوت کے وقت رحمتیں نازل ہوتی ہیں) کے ذریعے مانگی جانے والی دعا ہے اور حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ میت کو دعا اور صدقہ کا ثواب پہنچتا ہے اور اسی پر اجماع ہے۔
اھل السنۃ والجماعۃ کا موقف قرآن کریم کی آیات اور احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام سے ثابت ہے، ذیل میں ان آیات واحادیث کو ذکر کیا جاتا ہے۔
ایصالِ ثواب کا قرآن وحدیث سے ثبوت
واضح رہے کہ موت کے بعد انسان کا رشتہ دار العمل (دنیا) سے منقطع ہو جاتا ہے، اب وہ چاہے بھی تو اپنے نیک اعمال میں اضافہ نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ موت کے بعد عمل کی مہلت ختم ہو جاتی ہے، اب اس کے اعمال کا بدلہ دیا جانا ہوتا ہے، چنانچہ اس کے اچھے اور برے اعمال کا حقیقی بدلہ (جنت یا جہنم) کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہی ہوگا، لیکن موت کے بعد قیامت تک کی برزخی زندگی جو عام طور پر قبر میں گزرتی ہے، اس دوران وہ انسان اپنے اعمال کے مطابق، اخروی ٹھکانے (جنت یا جہنم) کے اثرات محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے، اس دوران وہ شخص خود تو نیک اعمال نہیں کر سکتا ہے، لیکن کیا اسے کسی نیک عمل کا ثواب پہنچتا ہے؟ اور کیا کوئی زندہ شخص کسی فوت شدہ مؤمن کے لیے کوئی نیک عمل کر کے اس کا ثواب اسے پہنچا سکتا ہے؟
چنانچہ اس بارے درج ذیل آیات واحادیث سے رہنمائی ملتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ م بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ إنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْم}
( سورۃ الحشر :۱۰)
ترجمہ:
اور جو لوگ ان کے بعد آئے ان کا بھی حق ہے، وہ دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار!ہماری اور ہم سے پہلے ایمان لانے والے ہمارے بھائیوں کی مغفرت فرما دیجئے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں سے بغض نہ پیدا فرما یئے، بلا شبہ آپ رحم و کرم والے ہیں۔
صحیح مسلم کی روایت ہے:
عن أبي ہریرۃؓ ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: "إذا مات الإنسان إنقطع عنہ عملہ إلا من ثلاثۃ إلا من صدقۃ جاریۃ او علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعولہ".
(الصحیح للامام مسلم: باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ: ۳/ ۱۲۵۵، (۱۶۳۱)، طبع دار احیاء التراث العربی بیروت)
ترجمہ:
جب کوئی انسان فوت ہو جاتا، تو اس کے عمل کا سلسلہ رک جاتا ہے، سوائے تین کاموں کے: کوئی صدقہ جاریہ چھوڑا ہو، یا ایسا علم چھوڑا ہو جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو، یا اس کی نیک اولاد ہو جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔
سنن ابن ماجہ کی روایت ہے:
"إنَّ اللّٰہَ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِيْ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ:یَا رَبِّ! أَنّٰی لِيْ ہٰذِہٖ ؟ فَیَقُوْلُ :بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ".
ترجمہ :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ بلا شبہ اللہ تعالی نیک بندے کے لیے جنت میں درجات بلند کر دینگے، وہ پوچھے گا کہ یہ درجات مجھے کہاں سے حاصل ہو ئے؟ اس سے اللہ تعالی
فرمائیں گے کہ تیرے بیٹے کے تیرے حق میں استغفار کرنے سے یہ درجات تمہیں حاصل ہوئے ہیں۔
(ابن ماجہ:۳۶۶۰، أحمد:۱۰۶۱۸، معجم کبیر طبراني: ۱۲۹۱، مصنف ابن أبي شیبۃ :۱۲۲۰۷)
مرحومین کو ثواب پہنچنے کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہیں:
١- مرحوم خود کوئی ایسا نیک عمل کر کے جائے، جو اس کی وفات بعد بھی باقی اور جاری رہے، اس کو صدقہ جاریہ کہا جاتا ہے، اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثۃٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ".
ترجمہ:
جب انسان مرجاتا ہے، تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے؛ مگر تین اعمال کا ثواب جاری رہتا ہے :ایک صدقہ جاریہ کا، دوسرے نفع پہنچانے والے علم کا اور تیسرے نیک صالح اولاد کا جو اس کے حق میں دعا کرے۔
( صحیح مسلم : ۴۳۱۰، ترمذي:۱۳۷۶، أبوداود:۲۸۸۲، نسائي :۳۶۵۱،أحمد :۸۸۳۱، صحیح ابن خزیمۃ :۲۴۹۴،صحیح ابن حبان :۳۰۱۶)
٢- مرحوم کے رشتہ دار اور دوست واحباب کوئی نیک عمل بجا لائیں اور ان کا ثواب مرحوم کو پہنچا ئیں، اس کی چار صورتیں ہیں:
(1) قلبی عبادات، جیسے ایمان ویقین، مثلاً: کسی غیر مؤمن کو کسی مؤمن کے ایمان کا ثواب نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی یہ میت کے حق میں مفید ہو سکتا ہے، کیوں کہ کسی کا ایمان کسی اور کے کام نہیں آ سکتا ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
{اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔}
(سورۃ النجم :۳۸-۳۹)
ترجمہ:
یہ کہ کوئی انسان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ کسی انسان کو سوائے اس کی محنت کے کچھ اور نہیں ملے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْن اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۔}
(سورۃ التوبہ :۱۱۳)
ترجمہ:
نبی کے لیے اور مؤمن لوگوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکین کے حق میں استغفار کریں اگر چہ کہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان کے سامنے یہ بات آشکارا ہو چکی ہے کہ وہ جہنمی ہیں۔
الغرض کفار کے حق میں ایصال ثواب نہیں ہو سکتا ہے۔
(2) مالی عبادات: جیسے صدقہ و خیرات وغیرہ ۔
اس سلسلے میں متعدد احادیث وارد ہیں، جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ وخیرات، اسی طرح کوئی اور مالی عبادت میت کی جانب سے کی جا سکتی ہے اور اس کا ثواب اس کو پہنچتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوا جب کہ حضرت سعد موجود نہیں تھے ، وہ اللہ کے رسول علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور عرض کیا:
" یَا رَسُولَ اللّٰہ ِ! إِنَّ أُمِّي تُوُفِّیَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْہَا أَیَنْفَعُہَا شَیْء ٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِہِ عَنْہَا".
یا رسول اللہ ! میری ماں کا انتقال اس وقت ہوا کہ میں موجود نہیں تھا، کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو ان کو کچھ نفع ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں صدقہ کرو! اس پر انھوں نے کہاکہ میرا ایک باغ ہے، میں اس کو ان کی جانب سے صدقہ کرتا ہوں۔
(صحیح بخاري :۲۷۵۶، سنن أبی داود :۲۸۸۴، مسند أحمد :۳۰۸۰)
(3) جسمانی عبادات: جیسے نماز و روزہ ، ذکر و تلاوت ، وغیرہ ۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
{وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ م بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ إنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْم}
( سورۃ الحشر :۱۰)
ترجمہ:
اور جو لوگ ان کے بعد آئے ان کا بھی حق ہے ، وہ دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار!ہماری اور ہم سے پہلے ایمان لانے والے ہمارے بھائیوں کی مغفرت فرما دیجئے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں سے بغض نہ پیدا فرما یئے، بلا شبہ آپ رحم و کرم والے ہیں۔
سنن ابن ماجہ کی روایت ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إنَّ اللّٰہَ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِيْ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ:یَا رَبِّ! أَنّٰی لِيْ ہٰذِہٖ ؟ فَیَقُوْلُ :بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ".
ترجمہ:
بلا شبہ اللہ تعالی نیک بندے کے لیے جنت میں درجات بلند کردینگے ، وہ پوچھے گا کہ یہ درجات مجھے کہاں سے حاصل ہو ئے ؟ اس سے اللہ تعالی
فرمائیں گے کہ تیرے بیٹے کے تیرے حق میں استغفار سے۔
(سنن ابن ماجہ:۳۶۶۰، مسند أحمد:۱۰۶۱۸،معجم کبیر طبراني: ۱۲۹۱،مصنف ابن أبي شیبۃ :۱۲۲۰۷)
سنن أبی داود میں ہے:
رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم میت کو دفن کر نے کے بعد قبر پر کچھ دیر ٹھہرتے اور لوگوں سے فرماتے تھے: "اسْتَغْفِرُوا لأَخِیکُمْ وَسَلُوا لَہُ التَّثْبِیتَ فَإِنَّہُ الآنَ یُسْأَل".
ترجمہ:
اپنے اس بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے حقمیں ثابت قدمی کا سوال کرو ؛کیوں کہ وہ اس وقت سوال کیا جاتا ہے۔
(سنن أبی داود: ۳۲۲۳، وشرح السنۃ:۵ /۴۱۸)
اور دیگر جسمانی عبادات مثلاً: نماز، روزہ اور تلاوت قرآن وغیرہ، ان کے ایصالِ ثواب کے بارے میں بھی سوائے چند ایک حضرات کے تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ ان عبادات کس بھی ایصال ثواب کیس جا سکتا ہے۔
ذیل میں وہ احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن سے قرآن کریم پرھ کر ایصال ثواب کرنے کو بیان کیا گیا ہے۔
قرآن کریم کی تلاوت کے ایصال ثواب کا احادیث سے ثبوت
پہلی حدیث
معجم طبرانی کی روایت ہے:
حضرت علاء بن اللجلاج کے صاحبزادے عبد الرحمن روایت کرتے ہیں کہ قَالَ لِي أَبِي : یَا بنيَّ ! إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَلْحِدْنِي، فَإِذَا وَضَعْتَنِي فِي لَحْدِي، فَقُلْ : بِسْمِ اللَّہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللَّہ ِ، ثُمَّ سِنَّ عَلَیَّ الثَّرَی سِنًّا، ثُمَّ اقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِي بِفَاتِحَۃِ الْبَقَرَۃِ، وَخَاتِمَتِہَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُولُ ذَلِک".
ترجمہ:
حضرت علاء بن اللجلاج کے صاحبزادے عبد الرحمن روایت کرتے ہیں مجھ سے میرے والد نے فرمایاکہ جب میری موت ہوجائے، تو میرے لیے بغلی قبر بنانا، جب مجھے قبر میں رکھ دو تو "بسم اللہ و علی ملۃ رسول اللہ" کہنا، پھر میرے اوپر مٹی آہستہ سے ڈالنا، پھر میرے سر کے پاس سورہ بقرہ کا شروع اور اخیر پڑھنا، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات کہتے ہوئے سنا ہے۔
(المعجم للطبراني : رقم الحدیث: ۱۵۸۳۳)
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے "مجمع الزوائد" میں اس کے راویوں کو معتبر اور ثقہ قرار دیا ہے اور علامہ نیموی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ’’آثار السنن ‘‘میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔
(مجمع الزوائد:۳/۱۶۲، آثار السنن:۲/۱۲۴)
دوسری حدیث
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اقْرَؤُوا (یسٓ )عَلَی مَوْتَاکُمْ".
ترجمہ: اپنے مُردوں پر سورہ ’’یسٓ‘‘ پڑھو ۔
(سنن کبری نسائي :۱۰۸۴۶، أبو داود۱۲۳، أحمد:۲۰۳۱۶،ابن حبان:۳۰۰۲، أبو داود طیالسي:۹۷۳، معجم طبراني کبیر:۱۶۹۰۴)
یہ حدیث اگر چہ کہ ضعیف ہے، مگر ضعیف حدیث فضائل کے باب میں معتبر ہوتی ہے اوراس سے جو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ مُردوں پر سورہ ’’یس‘‘ پڑھ سکتے ہیں، یہ عمل کوئی فرض واجب نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فضیلت کی چیز ہے، لہذا اس کو پڑھ کر مُردوں کو ثواب پہنچانے کا جواز اس سے ثابت ہو تا ہے ۔
فائدہ:
علامہ ابن الملقن نے فرمایا ہے کہ سورہ یس کا پڑھنا سکرات والے اور میت دونوں کو بھی نفع دیتا ہے.
(البدر المنیر:۵/۱۹۶)
اور علامہ شوکانی نے بھی فرمایا ہے کہ "موتی" کا لفظ تو حقیقت میں مرے ہوئے کے لیے بولا جاتا ہے، لہذا سورۃ یسین کا پڑھنا فوت شدگان کے لیے مفید ہے۔
(نیل الأوطار:۵/۲۳)
تیسری حدیث
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوے سنا ہے:
"إِذَا مَاتَ أَحَدُکُمْ فَلا تَحْبِسُوہُ وَأَسْرِعُوا بِہِ إِلَی قَبْرِہِ وَلْیُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ، وَعِنْدَ رِجْلَیْہِ بِخَاتِمَۃِ الْبَقَرَۃِ فِی قَبْرِہِ".
ترجمہ:
جب تم میں سے کسی کی موت ہو جائے تو اس کو دیر تک نہ رکھو اور اس کی قبر کی جانب اس کو جلدی سے لے جاؤ اور قبر میں رکھ کر اس کے سر کے پاس سورہ فاتحہ اور پیروں کے پاس سورہ بقرہ کا اخیرحصہ تلاوت کیا جائے-
(طبراني:۱۳۴۳۸،شعب الإیمان:۸۸۵۴، کنز العمال:۴۲۳۹۰، الأمر بالمعروف للخلال:۲۴۵، القراء ۃ عند القبور للخلال:۲)
اس حدیث کو حافظ ابن حجر نے ’’فتح الباری ‘‘میں طبرانی کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
( فتح الباري:۳ /۱۸۴)
چوتھی حدیث
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
مرَّ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِقَبْرَیْنِ فَقَالَ: "إِنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذَّبَانِ فِي کَبِیرٍ، أَمَّا أَحَدُہُمَا فَکَانَ لاَ یَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ ، وَأَمَّا الآخَرُ فَکَانَ یَمْشِي بِالنَّمِیمَۃِ". ثُمَّ أَخَذَ جَرِیدَۃً رَطْبَۃً فَشَقَّہَا نِصْفَیْنِ فَغَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَۃً قَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ! لِمَ فَعَلْتَ ہَذَا ؟ قَالَ: "لَعَلَّہُ یُخَفَّفُ عَنْہُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا".
(صحيح بخاري:۲۱۸، صحيح مسلم:۷۰۳، سنن نسائي:۲۰۶۹،مسند أحمد:۱۹۸۰)
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر سے ہوا، آپ نے فرمایا: ان دونوں کوعذاب دیاجا رہا ہے اور انھیں کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا ہے، بلکہ ایک کو اس وجہ سے کہ وہ پیشاب سے بچتا نہیں تھا، دوسرے کو اس لیے کہ وہ چغلی کھاتا تھا۔ پھر آپ نے ایک تر و تازہ ٹہنی لی اور اس کو دو برابر حصوں میں چیر ڈالا اور ہر قبر پر ایک ایک کو گاڑدیا، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں فرمایا؟ آپ نے جواب میں فرمایا: ممکن ہے کہ اس کا عذاب ان کے تر و تازہ رہنے تک کم کردیا جائے۔
تشریح:
اس حدیث کے معنی تو واضح ہیں، اس میں جو آیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کی ایک شاخ لے کر دونوں قبروں پر گاڑ دیا اور دریافت کرنے پر فرمایاکہ ’’ممکن ہے کہ جب تک یہ سوکھ نہ جائیں ان قبر والوں کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی‘‘، تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تخفیف عذاب کا سبب کیا ہے؟
اس کے بارے میں علمائے کرام نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں، ان میں سے ایک توجیہ بعض محدثین کرام نے یہ بیان کی ہے کہ درخت کی ٹہنی و شاخ جب تک تر وتازہ رہتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر و تسبیح کرتی رہتی ہے، یہی تسبیح و ذکر ان اہل قبر کے حق میں تخفیف عذاب کا سبب بنتی ہے
چنانچہ بہت سے جلیل القدر علماء امت مثلاً: محی السنۃ امام بغوی،امام ابن دقیق العید، مشہور مفسر امام قرطبی، محدث عظیم شارح مسلم امام علامہ محی الدین نووی ، شارح بخاری علامہ بدر الدین العینی، علامہ جلال الدین سیوطی اور علامہ محمد عابد سندھی رحمہم اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ نے اس توجیہ کے پیش نظر یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ قبر کے پاس تلاوت کر نے سے مرحومین کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے، کیوں کہ جب ایک بے جان ٹہنی کی تسبیح سے اس کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور عذاب میں تخفیف ہو سکتی ہے، تو انسان کی تسبیح و تلاوت سے تو بدرجہ اولیٰ نفع پہنچے گا۔
چناں چہ امام محی السنۃ البغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وفیہ دلیل علی أنہ یستحب قراء ۃ القرآن علی القبور؛ لأنہ أعظم من کل شیء برکۃً وثواباً".
ترجمہ:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ قبر وں پر تلاوت مستحب ہے؛ کیوں کہ یہ تمام چیزوں میں سب سے زیادہ برکت و ثواب کی چیز ہے۔
(شرح السنۃ للبغوی:۱/۳۷۲)
امام ابن دقیق العید القشیری اپنی کتاب "إحکام الأحکام" میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ أخذ بعض العلماء من ہذا:أن المیت ینتفع بقراء ۃ القرآن علی قبرہ من حیث إن المعنی الذي ذکرناہ في التخفیف عن صاحبي القبرین ہو تسبیح النبات ما دام رطباً فقراء ۃ القرآن من الإنسان أولی بذلک‘‘.
(إحکام الأحکام:۱ /۴۸)
ترجمہ :
بعض علما نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ میت ،قبر پر قراء ت قرآن سے منتفع ہوتی ہے ، اس طرح کہ جوسبب ہم نے قبر والوں سے تخفیف عذاب کا بیان کیا ہے وہ نباتات کے تر وتازہ رہنے تک ان کی تسبیح کرنا ہے ، لہذا انسان کا قرآن پڑھنے سے یہ بات حاصل ہونا بدرجہ اولیٰ ہوگا۔
امام محی الدین نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’وَاسْتَحَبَّ الْعُلَمَاء قِرَاء َۃ الْقُرْآن عِنْد الْقَبْر لِہَذَا الْحَدِیث ؛ لِأَنَّہُ إِذَا کَانَ یُرْجَی التَّخْفِیف بِتَسْبِیحِ الْجَرِید فَتِلَاوَۃ الْقُرْآن أَوْلَی ، وَاللَّہُ أَعْلَم۔
(شرح مسلم:۱ /۱۴۱)
ترجمہ :
حضرات علماء نے اسی حدیث کی وجہ سے قبر پر قرآن کی تلاوت کو مستحب قرار دیا ہے ؛ کیوں کہ جب ایک درخت کی شاخ کی تسبیح سے عذاب میں تخفیف کی امید ہو سکتی ہے تو قرآن کی تلاوت سے تو بدر جہ اولی ہونا چاہیے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ نے ’’المفھم شرح مسلم ‘‘میں لکھا ہے:
’’ و أخذ من ہذا التأویل جواز القراء ۃ والذکر علی القبور‘‘
(المفہم شرح مسلم :۴/۲۸)
ترجمہ :
اس توجیہ سے قبروں پر قراء ت قرآن اور ذکر کا جواز اخذ کیا گیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’الامتاع بالأربعین المتبائنۃ السماع ‘‘ میں لکھا ہے:
’’ وأصل ذلک وضع الجریدتین في القبر ، بناء علی أن فائدتہما أنہما ما دامتا رطبتین تسبحان ؛ فتحصل البرکۃ بتسبیحہما لصاحب القبر ، ولہذا جعل غایۃ التخفیف جفافہما ، وہذا علی بعض التأویلات في ذلک ۔ وإذا حصلت البرکۃ بتسبیح الجمادات فبالقرآن الذي ہو أشرف الذکر من الآدمي الذي ہو أشرف الحیوان أولی بحصول البرکۃ بقراء تہ ؛ ولا سیما إن کان القاریٔ رجلاً صالحاً۔ ‘‘ واللہ أعلم.
(الإمتاع بالأربعین المتبائنۃ السماع:۸۶)
ترجمہ :
اس کی اصل قبر پر دو شاخوں کا اس بناپر گاڑنا ہے کہ ان کا یہ فائدہ ہوگا کہ جب تک یہ تر و تازہ رہیں گی تسبیح کرتی رہیں گی ،پس ان کی تسبیح سے قبر والے کو برکت حاصل ہو گی۔اور اللہ کے رسول نے اسی لیے شاخوں کے سوکھ جانے کو تخفیف عذاب کی غایت قرار دیا ہے ۔ یہ اس حدیث کی متعدد تاویلات میں سے ایک تاویل کی بنا پر ہے ۔ پس جب جمادات کی تسبیح سے برکت حاصل ہو سکتی ہے تو قرآن کریم -جو کہ اشرف الذکر ہے -اس کی تلاوت انسان کی جانب سے ہو- جو کہ اشرف المخلوق ہے -تو حصول برکت بدر جہ اولی ہو گی ، بالخصوص اگر قاری نیک و صالح شخص ہو۔
غرض یہ کہ جسمانی عبادات میں سے قرآن کی تلاوت کا ثواب مرحومین کو پہنچنا بھی متعدد دلائل سے ثابت ہے۔
(4) جسمانی و مالی عبادات کا مجموعہ: وہ عبادات جو جسم و جان اور مال و دولت دونوں سے مرکب ہوں ،جیسے حج و عمرہ۔
جمہور علماء اہل السنت والجماعت کے جسمانی عبادات اور مالی عبادات دونوں کے مجموعہ پر مشتمل عبادات کا ایصال ثواب کرنا جائز ہے اور متعدد احادیث سے ثابت ہے، ذیل میں ان میں سے چند ایک کو لکھا جاتا ہے
١- حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور اس نے سوال کیا کہ میری والدہ نے حج کی نذر مانی تھی، مگر حج کرنے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا ،تو کیا میں والدہ کی جانب سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایاکہ تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا اس کو نہ ادا کرتی؟ اس نے کہا :کہ ہاں ادا کرتی ، آپ نے فرمایاکہ پھر یہ بھی ادا کرو، کیوں کہ اللہ وفا کا زیادہ حقدار ہے۔
(صحیح بخاري:۷۳۱۵، و سنن بیہقي:۸۹۳۳)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے یہ بھی روایت ہے کہ
’’ایک عورت قبیلہ خثعم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد پر حج ایسے زمانے میں لاگو ہوا ہے کہ وہ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے ،کیا میں ان کا حج کر سکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں! اور یہ واقعہ حجۃالوداع میں پیش آیا تھا۔
(صحیح بخاري:۱۵۱۳،موطأمالک:۷۸۹،مسلم:۳۳۱۵، أبوداود:۱۸۱۱، نسائي: ۲۶۳۵، ابن ماجہ:۲۹۰۹، مسند أحمد:۱۸۹۰)
الغرض ایصالِ ثواب کی یہ مختلف صورتیں ہیں جن سے ایک شخص اپنے مرحومین کو ثواب پہنچا کر ان کے لیے نجات اخروی کا سامان کر سکتا ہے۔
ایصال ثواب کے نام سے مختلف رسومات کا حکم
البتہ ہمارے زمانے میں ایصال ثواب میں بہت سی بے اعتدالیاں اور بدعات و رسومات پیدا ہو گئیں ہیں، جن کی ہر علاقے اور قوم کے اعتبار سے مخصوص شکلیں ہیں، مثلا: ایصال ثواب کے لئے دنوں کی تخصیص کرنا، تیجہ، چالیسواں اور عرس وغیرہ، کھانے پینے کا انتظام کرنا، اجرت پر قرآن خوانی کروانا، جگہ کی تخصیص اور اجتماع کی تخصیص کرنا وغیرہ، شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔
لہذا ان رسومات سے بچتے ہوئے قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے، دعاؤں کے ذریعے، ذکر واستغفار کے ذریعے، صدقہ وخیرات، اور حج وعمرہ اور نفلی نماز و روزوں کے ذریعے مرحومین کے لیے ایصال ثواب کرنے کی اجازت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (باب الحج، عن الغیر مطلب فیمن أخذ في عبادته شیئا من الدنیا، 595/2)
"الأصل أن کل من أتی بعبادۃ مالہ جعل ثوابہا لغیرہ
أی من الأحیاء والأموات". "سواء کانت صلوٰۃ أو صوماً أو صدقۃً أو قراءۃ أو ذکراً أو طوافاً الخ".
رد المحتار: (66/1)
"وفی البحر من صام اوصلی اوتصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الاموات والاحیاء جازویصل ثوابہا الیہم عنداہل السنۃ والجماعۃ کذافی البدائع…وانہ لافرق بین الفرض والنفل اھ وفی جامع الفتاویٰ وقیل لایجوز فی الفرائض".
الموسوعة الفقھیة الکویتیة: (291/1)
"وقد نص الحنفیۃ علی أنہ لایجوز قراء ۃ القرآن بأجرو أنہ لایترتب علی ذلک ثواب والآخذ والمعطي آثمان".
رد المحتار: (56/6)
"فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا".
رد المحتار: (240/2)
وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَالثَّالِثِ وَبَعْدَ الْأُسْبُوعِ وَنَقْلُ الطَّعَامِ إلَى الْقَبْرِ فِي الْمَوَاسِمِ، وَاِتِّخَاذُ الدَّعْوَةِ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَجَمْعُ الصُّلَحَاءِ وَالْقُرَّاءِ لِلْخَتْمِ أَوْ لِقِرَاءَةِ سُورَةِ الْأَنْعَامِ أَوْ الْإِخْلَاصِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ اتِّخَاذَ الطَّعَامِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِأَجْلِ الْأَكْلِ يُكْرَهُ".
اکمال الخطاب فی تحقیق ایصال الثواب للمفتی شعیب اللہ خان المفتاحي: (ط: مکتبه مسیح الامت، دیوبند)
قاموس الفقه: (262/2)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی