سوال:
پوچھنا یہ ہے کہ نذر کے لئے مرچیں جلائی جاتی ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر دھواں نکلے تو نظر نہیں ہے اور دھواں نہ نکلے تو نظر ہے، کیا اس کی کوئی حقیقت ہے؟
جواب: واضح رہے کہ نظر بد سے حفاظت کے لیے حدیث مبارکہ میں مندرجہ ذیل دعا کا ذکر ملتا ہے:أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ.ترجمہ:میں الله کے مکمل کلمات کے ذریعے پناہ لیتا ہوں، ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی آنکھ سے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر:3371)
فضیلت: حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما پر یہ کلمات پڑھا کرتے تھے، اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام پر انہیں کلمات کو پڑھا کرتے تھے۔
البتہ نظر بد اتارنے کے بعض علاج اوربھی ہیں، مذکورہ علاج جس کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے، اگر بطور علاج کیا جائے اور اسے سنت، واجب، ثواب یا عبادت سمجھ کر نہ کیا جائے تو دیگر امراض کے علاج کی طرح اسے بھی بطور علاج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی خلافِ شرع عقیدہ یا عمل نہ پایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحديث: 3371، ط: دار الکتب العلمیۃ)
حدثنا عثمان بن أبي شيبة حدثنا جرير عن منصور عن المنهال عن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الل عنهما قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم يعوذ الحسن والحسين ويقول ( إن أباكما كان يعوذ بها إسماعيل وإسحاق أعوذ بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة ومن كل عين لامة )
رد المحتار: (364/6، ط : دار الفکر)
وفيها لا بأس بوضع الجماجم في الزرع والمبطخة لدفع ضرر العين، لأن العين حق تصيب المال، والآدمي والحيوان ويظهر أثره في ذلك عرف بالآثار فإذا نظر الناظر إلى الزرع يقع نظره أولا على الجماجم، لارتفاعها فنظره بعد ذلك إلى الحرث لا يضره روي «أن امرأة جاءت إلى النبي - صلى الله تعالى عليه وسلم - وقالت نحن من أهل الحرث وإنا نخاف عليه العين فأمر النبي - صلى الله عليه وسلم - أن يجعل فيه الجماجم» اه.
فتاوی محمودیه: (331/28، ط : دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی