سوال:
مفتی صاحب! فوتگی والے گھر کے پڑوسیوں کا فوتگی میں آنے والوں کے لیے کھانا بنانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جس گھر میں میت ہو جائے اس کے پڑوسیوں اور رشتے داروں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے گھر والوں کے لیے کھانے کا انتظام کریں، اور خود ان کے ساتھ بیٹھ کر انہیں کھلائیں، اور یہ کھانا میت کے گھر والے یا دور سے آنے والے مہمان جو اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکتے ہوں، کھانا چاہیے، باقی نزدیک سے آنے والے افراد کو اپنے اپنے گھر واپس چلے جانا چاہیے، ان کے لیے میت کے گھر کھانا کھانے کے لیے رکنا مناسب نہیں ہے، کیونکہ دعوت کا کھانا خوشی کے موقع پر ہوتا ہے نہ کہ غم کے موقع پر، یہی وجہ ہے کہ میت کے گھر کھانے کی دعوت مکروہ اور لائق ترک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکاة المصابیح: (کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت، الفصل الثاني، ص: 151)
"وعن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: صانعوا لآل جعفر طعاما فقد أتاهم ما يشغلهم).
رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه".
رد المحتار: (246/2)
قال فی الفتح :ویستحب لجیران اھل المیت والاقرباء الاباعد تھیئۃ طعام لھم یشبعھم یومھم ولیلتھم لقولہ علیہ السلام اصنعوا لآل جعفر طعاما الی آخر الحدیث …… ولانہ بر ومعروف ویلح علیھم فی الاکل لان الحزن یمنعھم من ذلک فیضعفون۔
فتح القدير: (کتاب الصلاة، قبیل باب الشهید، 102/2، ط: رشیدیه)
ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون،
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی