عنوان: ایک خاص مچھلی (الیش) کے شکار کرنے پر حکومتی پابندی کے باجود اسے شکار کرنے٬ خرید وفروخت کرنے٬ اور حکومتی نمائندوں کا وہ مچھلی ضبط کرکے مدارس میں دینے٬ نیز ارباب مدارس کیلئے اسے استعمال کرنے کا حکم(6841-No)

سوال: السلام علیکم،
ایک مچھلی ہے، جسے بنگلہ زبان میں 'الیش' کہتے ہیں، ماہرین کی ہدایت کے مطابق حکومت نے مخصوص ایام ( مچھلی کے انڈا دینے اور نشو ونما کے وقت ) میں اس مچھلی کو شکار کرنے سے منع کیا ہے، اس پابندی سے اس مچھلی کی پیداور میں کئی برس سے اچھا خاصہ اضافہ بھی ہوا ہے، لیکن کچھ لوگ خلافِ قانون اس وقت بھی مچھلی پکڑتے ہیں، حکومت جب ان لوگوں کو پکڑتی ہے، تو ان سے مچھلی چھین کر یتیم خانہ اور مدارس میں دیدیتی ہے۔
اس ضمن میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1۔ اگر کسی نے ممنوع وقت میں مچھلی شکار کر لی تو کیا وہ اس مچھلی کا مالک ہوگا یا نہیں؟
2۔ کیا ایسا مچھلی خریدنا شرعاً جائز ہوگا؟
3۔ کیا اربابِ مدرسہ کیلیے حکومت سے ایسی مچھلی لینا جائز ہوگا؟
4- کیا مدرسہ کے طلبہ کیلیے ایسی مچھلی کھانا جائز ہوگا؟ نیز کیا غریب اور مالدار ہونے کی حیثیت سے ان کے حکم میں فرق ہوگا؟ اساتذہ کو ایسی مچھلی کھلانا اور کھانا جائز ہوگا؟

جواب: 1- واضح رہے کہ اگراسلامی مملکت عام مسلمانوں کے مفاد کی خاطر کسی جائز کام پر وقتی طور پر پابندی عائد کردے٬ تو ملک کے باشندوں پر اس کی پابندی شرعاً بھی لازم ہوجاتی ہے٬ لہذا جن مخصوص ایام میں مچھلی کے شکار قانونا منع ہو٬ تو ان دنوں میں شکار کرنا شرعا بھی درست نہیں ہے٬ وگرنہ ایک جائز قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا٬ تاہم شکار کرنے سے شکار کرنے والا وہ مچھلی کا مالک بن جائے گا۔
2- خلاف قانون شکار کی گئی مچھلی کی خریداری فی نفسہ جائز ہے٬ لیکن اگر اس کی خرید وفروخت پر بھی قانونا پابندی ہو٬ تو پھر اس کی خرید و فروخت بھی شرعا درست نہیں ہوگی.
3٬4- حکومت کی طرف سے خلاف قانون شکار کی گئی مچھلی کو ضبط کرنا مالی جرمانے (تعزیر بالمال) میں داخل ہے٬ جو اصل مذہبِ حنفی کے مطابق جائز نہیں، لیکن امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی ایک روایت، بعض فقہاء حنفیہ اورفقہاء مالکیہ کی آراء اور امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہم اللہ کے مذہب کے مطابق اس کی گنجائش ہے٬ جس سے اس مسئلہ کا فی الجملہ مجتہد فیہ ہونا واضح ہوتا ہے،اور اگر کوئی قاضی اسلامی مملکت کی مصلحت کے مطابق مجتہد فیہ معاملے میں میں خلافِ مذہب فیصلہ کردے٬ تو وہ چونکہ قضاءً نافذ ہوجاتاہے٬ اس لیے یہاں بھی اگر حکومت انتظامی مصلحت کے پیشِ نظر تعزیر بالمال کا حکم نافذ کردے٬ تویہ تعزیر بالمال قضاءً بہرحال نافذ ہوجائی گی٬ اور وہ ضبط شدہ مال بیت المال کی ملکیت میں داخل ہوجائے گا٬ جسے حکومت اپنی صوابدید کے مطابق درست مصارف میں خرچ کرسکتی ہے٬ لہذا ارباب مدارس کیلئے حکومت سے ایسی مچھلی لینا اور اسے استعمال کرنا جائز ہے٬ نیز طلباء (خواہ مالدار ہوں یا غریب) اور اساتذہ کا اسے استعمال کرنا بھی جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (1007/7، ط: دار الكتب العلمية)
"وإذا أمر عليهم يكلفهم طاعة الأمير فيما يأمرهم به، وينهاهم عنه؛ لقول الله - تبارك وتعالى - {يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم} [النساء: 59] وقال - عليه الصلاة والسلام -: «اسمعوا وأطيعوا، ولو أمر عليكم عبد حبشي أجدع ما حكم فيكم بكتاب الله - تعالى» ولأنه نائب الإمام، وطاعة الإمام لازمة كذا طاعته؛ لأنها طاعة الإمام، إلا أن يأمرهم بعصية فلا تجوز طاعتهم إياه فيها؛ لقوله - عليه الصلاة والسلام -: «لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق» ولو أمرهم بشيء لا يدرون أينتفعون به أم لا، فينبغي لهم أن يطيعوه فيه إذا لم يعلموا كونه معصية؛ لأن اتباع الإمام في محل الاجتهاد واجب، كاتباع القضاة في مواضع الاجتهاد والله تعالى عز شأنه"

البحر الرائق: (44/5، ط: دار الکتاب الاسلامی)
"ولم يذكر محمد التعزير بأخذ المال وقد قيل روي عن أبي يوسف أن التعزير من السلطان بأخذ المال جائز كذا في الظهيرية وفي الخلاصة سمعت عن ثقة أن التعزير بأخذ المال إن رأى القاضي ذلك أو الوالي جاز ومن جملة ذلك رجل لا يحضر الجماعة يجوز تعزيره بأخذ المال اه.
وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اه. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال"

فقه الإسلامي و أدلته: (5596/7، ط: دار الفكر)
"لا يجوز التعزير بأخذ المال في الراجح عند الأئمة لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس، فيأكلونه. وأثبت ابن تيمية وتلميذه ابن القيم أن التعزير بالعقوبات المالية مشروع في مواضع مخصوصة في مذهب مالك في المشهور عنه، ومذهب أحمد وأحد قولي الشافعي، كما دلت عليه سنة رسول الله صلّى الله عليه وسلم مثل أمره بمضاعفة غرم ما لا قطع فيه من الثمر المعلَّق والكثَر (جمّار النخل)، وأخذه شطر مال مانع الزكاة، عزمة مات الرب تبارك وتعالى، ومثل تحريق عمر وعلي رضي الله عنهما المكان الذي يباع فيه الخمر، ونحوه كثير. ومن قال كالنووي وغيره: إن العقوبات المالية منسوخة، وأطلق ذلك، فقد غلط في نقل مذاهب
الأئمة والاستدلال عليها"

کذا فی تبویب فتاوي دار العلوم کراتشي: رقم الفتوي: 92/1674

و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 510 Feb 18, 2021
aik khas machli / fish (alish) ke / kay shikar / shikaar karne par / per hokomti pabandi ke / kay bawajod usey shikar karne,or hokomti numaendo ka wo machli / fish sabt karke madaris me / mein dene,neiz arbab e madaris keliye istimal karne ka hokom /hokum, In spite of the government ban on hunting a certain fish (alish), the command to hunt, buy and sell it, and order / ruling for the government representatives to confiscate that fish and give it to madrasas, as well as to use it for the lords of madrasas.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.