سوال:
مفتی صاحب ! اگر رخصتی کے وقت دولھا کھانا ولیمہ کی نیت سے کردے اور کھانے کے بعد رخصتی ہو تو کیا ولیمہ ادا ہوجائے گا؟
جواب:
ولیمہ عقد نکاح کے بعد مسنون ہے، البتہ اس کی تین صورتیں ممکن ہیں:
(۱) ولیمہ عقد نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے ہو۔
(۲) عقد نکاح اور رخصتی کے بعد شب زفاف سے پہلے ہو۔
(۳) عقد نکاح، رخصتی اور شب زفاف کے بعد ہو۔
ان تینوں میں سے تیسری صورت افضل اور مسنون ہے، مگر نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے ولیمہ کرنا بھی جائز ہے، اور اس سے نفس ولیمہ کی سنت ادا ہوجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
اعلاء السنن: (باب استحباب الولیمۃ، 12/11، ط: ادارۃ القرآن)
"والمنقول من فعل النبي صلی الله علیه وسلم أنها بعد الدخول، کأنه یشیر إلی قصة زینب بنت جحش، وقد ترجم علیه البیهقي بعد الدخول، وحدیث أنس في هذا الباب صریح في أنها الولیمة بعد الدخول".
مرقاۃ المفاتیح: (2104/21، ط: دار الفکر)
(أولم ولو بشاة) : أي: اتخذ وليمة، قال ابن الملك: تمسك بظاهره من ذهب إلى إيجابها والأكثر على أن الأمر للندب، قيل: إنها تكون بعد الدخول، وقيل: عند العقد، وقيل: عندهما
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (249/5، ط: دار السلاسل)
وصرح الحنفية بأنه إذا بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء ويذبح لهم ويصنع لهم طعاما، وإذا اتخذ وليمة ينبغي لهم أن يجيبوا، ولا بأس بأن يدعو يومئذ من الغد وبعد الغد ثم ينقطع العرس والوليمة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی