سوال:
مفتی صاحب ! 18 فروری بروز جمعرات کو جب میرے شوہر کام سے واپس آئے تو گھر میں بجلی کا کچھ کام کر رہے تھے، اسی دوران کسی بات پر ہماری بحث و مباحثہ شروع ہوئی، بلآخر معاملہ اتنا بڑا کہ میرا شوہر نے مجھے مارنا شروع کر دیا اور گلا دبا اور طرح طرح کی بات کرنے لگے اور اسی دوران میرے شوہر نے کہا کہ اتوار کے دن اپنا سامان اٹھا لینا، ہفتے کو حساب کتاب دے دوں گا اور اگر پیر کو سامان کمرے میں نظرآیا تو آگ لگا دوں گا، لیکن فی الحال ابھی تک ان اختلافات کے باوجود ہم ایک ساتھ رہ رہے ہیں، اس واقعہ کے بعد ہمارے درمیان ازدواجی تعلقات بھی قائم ہوا ہے، میرے شوہر نے جو بات کہی تھی، اس پر عمل نہیں ہوا ہے تو آیا اس سے طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟ اور میرے شوہر نے جو کچھ کہا ہے، غصہ کی حالت اور بحث و مباحثہ کے دوران کہا ہے اور اس جھگڑے کا سبب ہم میاں بیوی نہیں، بلکہ ساس ہیں، وہ جھوٹ بول کر ہمارے درمیان جھگڑا کراتی ہیں۔ براہ کرم اس کا جواب عنایت فرمائیں۔
جواب: صورت مسئولہ میں آپ کے شوہر نے جو الفاظ ادا کئے ہیں، ان سب میں مستقبل کا صیغہ ہے، اس لئے طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیہ: (384/1، ط: رشیدیة)
فقال الزوج أطلق (طلاق می کنم) فکررہ ثلاثاً طلقت ثلاثاً بخلاف قولہ: سأطلق (طلاق می کنم) لأنہ استقبالٌ فلم یکن تحقیقا بالشک․
بدائع الصنائع: (264/4، ط: سعید)
و اما بیان رکن الطلاق فرکن الطلاق، ھو اللفظ الذی جعل دلالۃ علی معنی الطلاق لغۃ، و ھو التخلیۃ و الارسال و رفع القید فی الصریح، و قطع الوصلۃ و نحوہ فی الکنایۃ، او شرعاً ، و ھو ازالۃ حل المحلیۃ فی نوعین۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی