سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک دوست اپنے بھائی کے ساتھ کاروبار میں کچھ پیسے انویسٹ کرنا چاہ رہا ہے، کام اس کا بھائی کرے گا، لیکن منافع فیصد کے اعتبار سے آپس میں تقسیم کریں گے اور نقصان میں بھی اسی فیصد کے اعتبار سے شریک ہوں گے، جس فیصد سے منافع میں شریک ہیں۔ کیا ایسا کرنا درست ہے اور اگر نہیں تو درست صورت کی طرف رہنمائی فرمادیں۔
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
جواب: شراکت داری کا شرعی اصول یہ ہے کہ تمام شرکاء کاروبار کے نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوں گے، اور نقصان کی صورت میں ہر شریک اپنے اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا، یعنی جس نے جتنا فیصد سرمایہ لگایا ہے، اسے اتنے ہی فیصد نقصان اٹھانا پڑے گا۔
البتہ جہاں تک نفع کی تقسیم کا تعلق ہے٬ تو اس سلسلے میں شریعت کی طرف سے کوئی مخصوص مقدار یا تناسب لازم نہیں ہے٬ بلکہ فریقین اپنے سرمایہ٬ ذمہ داریوں اور کاروبار کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے نفع کا کوئی بھی فیصدی تناسب طے کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مصنف عبد الرزاق: (رقم الحديث: 15087)
عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: قَالَ الْقَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي الْحُصَيْنِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ فِي الْمُضَارَبَةِ: «الْوَضِيعَةُ عَلَى الْمَالِ، وَالرِّبْحُ عَلَى مَا اصْطَلَحُوا عَلَيْهِ» وَأَمَّا الثَّوْرِيُّ فَذَكَرَهُ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ عَلِيٍّ فِي الْمُضَارَبَةِ، أَوِ الشِّرْكَيْنِ.
الفتاوی الھندیۃ: (320/2، ط: دار الفکر)
وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی