سوال:
مفتی صاحب ! جب میری بیوی کو میرے سابقہ تعلقات کے بارے میں پتا چلا تو اس پر وہ کہنے لگی کہ اگر مجھے پہلے سے پتا ہوتا تو میں شادی سے انکار کردیتی، اس پر میں نے کہہ دیا کہ " ٹھیک ہے اب سے چلی جاؤ " جسے سن کر میری بیوی ناراض ہوگئی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس جملے "ٹھیک ہے اب سے چلی جاؤ" سے طلاق واقع ہوجائیگی؟ جبکہ میرا ارادہ طلاق کا نہیں تھا، بلکہ بیوی کو اختیار دینا تھا کہ اگر وہ چاہے تو تلاش کرکے کسی ایسے لڑکے کے پاس جاسکتی ہے جس کی زندگی میں کوئی لڑکی نہ آئی ہو۔
جواب: "اب سے چلی جاؤ" طلاق کے کنائی الفاظ میں سے ہے، ان سے نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔
صورت مسئولہ میں چونکہ آپ کی نیت طلاق کی نہیں تھی، اس لئے ان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (314/3، ط: سعید)
ولو قال : اذہبي فتزوجي، وقال لم أنو الطلاق لا یقع شيء؛ لأن معناہ أن أمکنک إلی قولہ ویؤید ما في الذخیرۃ اذہبي وتزوجي لایقع إلا بالنیۃ۔
فتاویٰ عثمانی: (368/2، ط: مکتبہ معارف القرآن)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی