سوال:
مفتی صاحب! میں نے اپنی بیوی کو بھائی کے غصہ دلانے اور ابھارنے کی وجہ سے تین طلاق دیدی تھیں، پھر دو مہینے بعد رجوع کرلیا تھا، رجوع کیے ہوئے تقریباً چھ سال ہوگئے ہیں، لیکن میں نے ابھی تک میاں بیوی والا خاص تعلق قائم نہیں کیا، کیونکہ مجھے اس طرح رجوع کرنا صحیح نہیں لگ رہا ہے، اس دوران میں نے دوسری شادی بھی کرلی ہے، لیکن اس فیصلہ کا برا اثر میرے بچوں پر پڑ رہا ہے، اس فیصلے سے میں اور میرا خاندان بھی بہت پریشان ہے۔
آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ہمارا رجوع صحیح ہوا ہے اور اگر صحیح نہیں ہوا، تو اس عورت کو کس طرح جائز طریقے سے اپنی زندگی میں دوبارہ لا سکتا ہوں؟
جواب: واضح رہے کہ ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاقیں، شریعت کی نظر میں تین ہی واقع ہوتی ہیں، اس کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے، اور تین طلاقوں کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہوتا ہے۔
یہ حکم قرآن کریم، احادیث نبویہ سے ثابت ہے، جمہور صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع بھی اسی پر ہے، اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالی کا بالاتفاق یہی مسلک ہے۔
البتہ اگر وہ عورت پہلے شوہر کی عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرے، اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرے، پھر وہ اسے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے ، پھر وہ عورت عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرے، تو ایسا کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 230)
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ"o
تفسیر روح المعانی: (البقرة، الآیۃ: 230)
"فإن طلقہا‘‘ متعلقا بقولہ سبحانہ ’’الطلاق مرتان‘‘ …… فلاتحل لہ من بعد‘‘ أي من بعد ذلک التطلیق ’’حتی تنکح زوجاًغیرہ‘‘ أي تتزوج زوجا غیرہ ویجامعہا".
أحکام القرآن للجصاص: (إیقاع الطلاق الثلاث معا، البقرة، الآیۃ: 230)
"قولہ تعالیٰ: ’’فإن طلقہافلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ‘‘ منتظم لمعان: منہا تحریمہا علی المطلق ثلاثا حتی تنکح زوجا غیرہ، مفید في شرط ارتفاع التحریم الواقع بالطلاق الثلاث العقد والوطء جمیعا".
صحيح البخاري: (باب من أجاز طلاق الثلاث، رقم الحدیث: 5261 )
"عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا أن رجلاً طلق امرأتہ ثلاثاً، فتزوجت، فطلق، فسئل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتحل للأول؟ قال: لا حتی یذوق عُسَیلتہا کما ذاق الأولُ".
صحيح مسلم: (با ب لا تحل المطلقة ثلاثاً حتی تنکح زوجاً غیرہ، رقم الحدیث: 1433)
"عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا أنہا سألت عن الرجل یتزوج المرأة، فیطلقہا ثلاثاً، فقالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لا تحلُّ للأول حتی یذوق الآخر عسیلتہا و تذوق عسیلتہ"
سنن أبي داود: (باب في اللعان، رقم الحدیث: 2250)
"عن سہل بن سعد قال :فطلقہا ثلاث تطلیقات عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فأنفذہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الخ“۔
سنن النسائي: (کتاب الطلاق، الثلاث المجموعة و مافیہ من التغلیظ، رقم الحدیث: 3401)
"عن محمود بن لبید قال:أخبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً، فقام غضباناً۔ ثم قال: أیلعب بکتاب اللّٰہ وأنا بین أظہرکم ،حتی قام رجل وقال: یا رسول اللّٰہ ألا أقتلہ؟".
فتح القدیر: (کتاب الطلاق، 269/3، ط: دار الفکر)
قال العلامة ابن الہمام رحمه الله تعالى:
ذہب جمہور الصحابة والتابعین ومن بعدہم من أئمة المسلمین الی أنہ یقع ثلاثاً".
عمدة القاری: (باب من جوز طلاق الثلاث، 233/2، ط: دار احیاء التراث العربي)
وقال العلامة بدر الدین عینی رحمه الله تعالى:
”ومذہب جماہیر العلماء من التابعین ومن بعدہم منہم: الأوزاعي والنخعي والثوري، و أبو حنیفة وأصحابہ، ومالک و أصحابہ، والشافعي وأصحابہ، وأحمد و أصحابہ، و اسحاق و أبو ثور و أبو عبید وآخرون کثیرون علی أن من طلق امرأتہ ثلاثاً، وقعن؛ولکنہ یأثم“.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی