سوال:
مفتی صاحب ! ایک آدمی کا نکاح ہوا، کچھ عرصہ میاں بیوی ایک ساتھ رہتے رہے، پھر عورت اپنے والدین کے گھر چلی گئی، اب وہ اپنے میکہ سے آ نہیں رہی ہے، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ الگ گھر اور چولہے کا مطالبہ کررہی ہے تو کیا بیوی کو الک گھر دینا شوہر کے ذمہ ضروری ہے یا اپنے والدین کے ساتھ رکھنا ہی ضروری ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی کا نان نفقہ اور رہائش کا انتظام کرنا لازم ہے، رہائش سے مراد ایسا مقفل کمرہ، باورچی خانہ اور بیت الخلاء ہے، جس میں شوہر کے گھر والوں یا کسی اور کی مداخلت نہ ہو، اور اس میں کسی دوسرے کا اشتراک نہ ہو، چنانچہ ایک الگ کمرہ جس کے ساتھ باورچی خانہ اور باتھ روم بھی ہو، اور سامان وغیرہ بحفاظت رکھ سکتی ہو اور دیگر شرعی فطری تقاضے اطمینان کے ساتھ اس میں پوری کرسکتی ہو، اس طرح کے کمرہ کا انتطام کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے، اور یہ بیوی کا شرعی حق ہے، اس سے زیادہ کا وہ مطالبہ نہیں کرسکتی۔اگر یہ سہولت والدین کے ساتھ ایک ہی گھر میں فراہم کردے، تب بھی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (الباب السابع عشر في النفقات، 556/1، ط: ماجدية)
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك".
رد المحتار: (مطلب في مسكن الزوجة، 601/3، ط: سعيد)
"إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك".
الھدایۃ: (417, 418، ط: رحمانیۃ)
وعلی الزوج ان یسکنھا فی دار مفردۃ لیس فیھا احد من اھلہ۔۔۔۔۔۔ ولو اسکنھا فی بیت من الدار مفردۃ ولہ غلق کفاھا۔
البحر الرائق: (193/4)
الاسکان للزوجۃ علی زوجھا فتجب لھا کما تجب النفقۃ۔۔۔ لیس لہ ان یشترک غیرھا لانھا تتضرر بہ۔
فتاوی عثمانی: (487/2، ط: مکتبۃ معارف القرآن)
فتاوی عباد الرحمن: (202/5، ط: دار الافتاء و التحقیق)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی