سوال:
میرے سسر کا انتقال ہو گیا ہے، انکی دوسری بیوی جو کہ میری ساس نہیں ہے، ہم انہیں مستقل اپنے گھر منتقل کررہے ہیں، میرے بیٹے بھی بڑے ہیں، مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ کہ ہم میں سے کس سے اس کا پردہ ہے؟
جواب: یاد رہے سوتیلی ساس محرم نہیں ہے، اس لئے آپ سے اسکا پردہ کرنا ضروری ہے، جبکہ سوتیلی نانی محرم ہے، اس لئے آپ کے بچوں سے اسکا پردہ نہیں ہے، البتہ اگر سوتیلی ساس بڑی عمر کی ہیں، تو ان کے لیے داماد کے سامنے چہرہ کھولنے کی گنجائش ہوگی، بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النور، الآیۃ: 60)
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌo
و قولہ تعالیٰ: (النساء، الآیۃ: 22)
وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلاًo
الھدایہ: (327/2، ط: مکتبہ رحمانیہ)
لا یحل للرجل ان یتزوج بامہ، ۔۔۔۔۔۔۔ ولا بامرأۃ ابیہ و اجدادہ، لقولہ تعالیٰ"ولا تنکحوا ما نکاح اٰبائکم".
الفتاوی الھندیۃ: (277/1، ط: مکتبہ رشیدیۃ)
و یجوز بین امرأۃ وبنت زوجہا فإن المرأۃ لو فرضت ذکرا حلت لہ تلک البنت بخلاف العکس۔
فتاویٰ محمودیہ: (315/11، ط: ادارۃ الفاروق)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی