سوال:
مفتی صاحب ! ہمارے علاقہ کے کئی لوگ سعودیہ میں کام کرتے ہیں، انہوں نے ایک تنظیم بنائی ہوئی ہے، جو تقریباً 70 افراد پر مشتمل ہے، اس تنظیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایکسڈنٹ یا چھت سے گرنے کی وجہ سے زخمی ہوجاتا ہے، تو اس کو پانچ ہزار ریال دیتے ہیں، اور اگر مرجاتا ہے، تو بیس ہزار ریال دیتے ہیں اور یہ ریال سب پر تقسیم ہوتے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص پیسے دینے سے انکار کردے، تو وہ اس تنظیم کا حصہ نہیں رہتا، یعنی اگر اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے، تو اس کو پیسے نہیں دیے جاتے۔
آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ہمارا یہ طریقہ شرعا درست ہے؟ اگر درست نہیں ہے تو اس کا کوئی متبادل بتادیں۔
جواب: عام طور پر ہمارے معاشرے میں رائج "میت کمیٹیاں" مذکورہ بالا دونوں ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں، جن کی بنیاد "امداد باہمی" اور "خدمت خلق" ہوتی ہے، ان میں سے اکثر کمیٹیوں کی شرائط اور اصول ایسے ہوتے ہیں، جو شرعاً جائز نہیں ہوتے، ذیل میں ان چند ایک کو بیان کیا جاتا ہے:
١- کمیٹی کا ممبر بننے کی بنیادی شرط ہوتی ہے کہ وہ ممبر چاہے امیر ہو یا غریب ہو، ماہانہ یا سالانہ ایک مخصوص رقم فنڈ میں لازمی جمع کروائے گا، اگر کوئی شخص اپنی ناداری کی وجہ سے وہ رقم جمع نہ کرا سکے، تو اس کی ممبر شپ ختم کردی جاتی ہے، جس کے بعد وہ شخص میت کمیٹی کی سہولیات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمیٹی میں جمع شدہ رقم کے عوض ہی اس کی سہولیات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، بظاہر اس کا نام امداد باہمی ہوتا ہے۔
٢- یہ دیکھا گیا ہے کہ کمیٹی کے بعض ممبران غریب و نادار ہوتے ہیں، جو اتنی وسعت واستطاعت نہیں رکھتے کہ ماہانہ معمولی رقم بھی ادا کرسکیں، لیکن برادری کی باتوں سے بچنے کے لیے، وہ مجبوراً یہ رقم جمع کرواتے ہیں، جبکہ شرعا کسی کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر لینا جائز نہیں ہے۔
بسا اوقات اگر کوئی غریب شخص فنڈ جمع نہیں کرواتا، تو اس کے گھر میں کسی کی فوتگی کے موقع پر برادری کے افراد اس سے اچھا برتاؤ نہیں کرتے، ایسے موقع پر اس کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے، جو اسلامی بھائی چارے کے خلاف ہے۔
٤- عام طور پر غمی کے موقع پر تمام لوگوں کے لیے باقاعدہ کھانا تیار کروایا جاتا ہے اور بعض علاقوں میں یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہتا ہے، نیز غمی کے موقع کی بدعات و رسومات کو بھی اسی فنڈ میں سے ادا کیا جاتا ہے، جبکہ یہ طریقہ خلاف سنت ہے اور اس میں بدعات و رسومات میں تعاون کرنا بھی آتا ہے۔ سنت سے تو اتنا ثابت ہے کہ صرف میت کے گھر والوں کے لیے اس کے پڑوسیوں کو کھانا تیار کرنا چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ اگر میت کا ذاتی مال ہو، تو اس سے تجہیز وتکفین کرنی چاہیے، اگر مال نہ ہو تو جس شخص پر میت کا خرچہ واجب ہے، وہ میت کی تجہیز وتکفین کے اخراجات اٹھائے، اگر وہ بھی نادار ہو، تو برادری کے صاحب حیثیت لوگ اس خرچ کو برداشت کریں اور آخری درجہ میں چندہ کیا جائے۔
جہاں تک کھانا کھلانے کی بات ہے، تو وہ صرف میت کے گھر والوں کے لیے بنایا جائے اور اس کے پڑوسی اگر وسعت رکھتے ہوں، تو اس کا اہتمام کریں۔
لہذا مذکورہ بالا شرعی قباحتوں کی وجہ سے میت کمیٹی بنانے اور اس کی ممبرشپ حاصل کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ہاں! اگر مندرجہ بالا قباحتوں سے اجتناب کرتے ہوئے، اگر کوئی عمومی رفاہی انجمن یا کمیٹی قائم کی جائے، جس میں لوگ اپنی حیثیت کے مطابق از خود چندہ دیں، کسی کو چندہ دینے کے لیے مجبور نہ کیا جائے اور یہ کمیٹی مختلف رفاہی کام سر انجام دے، مثلاً: ضرورت مندوں کی مدد کرے، بے روزگار لوگوں کو روزگار کے قابل بنائے، غریب لوگوں کو علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم کرے وغیرہ،
تو ایسی کمیٹی اگر غریب لوگوں کی فوتگی کے موقع پر تجہیز وتکفین میں مدد کرے، تو اس کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (باب ما جاء فی الطعام یصنع لأھل المیت، 195/1، ط: قدیمی)
حدثنا أحمد بن منیع و علی بن حجر قالا: حدثنا سفیان بن عیینۃ عن جعفر بن خالد عن أبیہ عن عبد اللّٰہ بن جعفرؓ قال : لما جاء نعی جعفرؓ قال النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم: "اصنعوا لأہل جعفرؓ طعاما فإنہٗ قد جاء ہم ما یشغلہم".
مسند أحمد: (رقم الحدیث: 20714، 72/5، ط: مؤسس قرطبۃ)
عن أبی حرۃ الرقاشی عن عمہٖ قال: کنت آخذا بزمام ناقۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم فی أوسط أیام التشریق أذود عنہ الناس ، فقال: "یا أیہا الناس ! ألا لا تظلموا ، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنہٗ لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ".
الدر المختار: (کتاب الفرائض، 759/7، ط: سعید)
"( یبدأ من ترکۃ المیت بتجہیزہٖ) یعم التکفین (من غیر تقتیر ولا تبذیر ) ککفن السنۃ أو قدر ما کان یلبسہٗ فی حیاتہٖ".
الدر المختار مع رد المحتار: (باب الجنائز، 205/2- 206، ط: سعید)
"( وکفن من لا مال لہٗ علٰی من تجب علیہ نفقتہٗ ) فإن تعددوا فعلی قدر میراثہم".
"قولہ: ( فعلی قدر میراثہم ) کما کانت النفقۃ واجبۃ علیہم فتح أی فإنہا علی قدر المیراث فلو لہٗ أخ لأم وأخ شقیق فعلی الأول السدس والباقی علی الشقیق ۔ أقول ومقتضی اعتبار الکفن بالنفقۃ أنہ لو کان لہ ابن وبنت کان علیہما سویۃ کالنفقۃ إذ لا یعتبر المیراث فی النفقۃ الواجبۃ علی الفرع لأصلہٖ ولذا لو کان لہٗ ابن مسلم وابن کافر فہی علیہما ومقتضاہ أیضا أنہٗ لو کان للمیت أب وابن کفنہٗ الابن دون الأب کما فی النفقۃ علی التفاصیل الآتیۃ فی بابہا إن شاء اللّٰہ تعالی".
و فیه ایضاً: (باب الجنائز، 205/2- 206، ط: سعید)
"( وإن لم یکن ثمۃ من تجب علیہ نفقتہٗ ففی بیت المال فإن لم یکن ) بیت المال معمورا أو منتظما (فعلی المسلمین تکفینہٗ ) فإن لم یقدروا سألوا الناس لہٗ ثوبا فإن فضل شیء رد للمصدق إن علم وإلا کفن بہٖ مثلہٗ وإلا تصدق بہ ، مجتبی۔ وظاہرہٗ أنہ لا یجب علیہم إلا سؤال کفن الضرورۃ لا الکفایۃ ولو کان فی مکان لیس فیہ إلا واحد وذلک الواحد لیس لہٗ إلا ثوب لا یلزمہ تکفینہٗ بہ".
قولہٗ ( فإن لم یکن بیت المال معمورا ) أی بأن لم یکن فیہ شیء أو منتظما أی مستقیمًا بأن کان عامرا ولا یصرف مصارفہٗ ط، قولہٗ ( فعلی المسلمین ) أی العالمین بہٖ وہو فرض کفایۃ یأثم بترکہٖ جمیع من علم بہٖ، ط ، قولہٗ ( فإن لم یقدروا ) أی من علم منہم بأن کانوا فقراء قولہٗ ( وإلا کفن بہٖ مثلہٗ ) ہذا لم یذکرہ فی المجتبی ، بل زادہ علیہ فی البحر عن التنجیس و الواقعات ، قلت: وفی مختارات النوازل لصاحب الہدایۃ فقیر مات فجمع من الناس الدراہم وکفنون وفضل شیء إن عرف صاحبہٗ یرد علیہ وإلا یصرف إلٰی کفن فقیر آخر أو یتصدق بہٖ".
و فیه ایضاً: (باب الجنائز، 24/2، ط: سعید)
"ولا بأس وباتخاذ طعام لہم".
"( وباتخاذ طعام لہم ) قال فی الفتح ویستحب لجیران أہل المیت والأقرباء الأباعد تہیئۃ طعام لہم یشبعہم یومہم ولیلتہم".
و فیه ایضاً: (باب الجنائز، 24/2، ط: سعید)
"قال فی الفتح: ویستحب لجیران أہل المیت والأقرباء الأباعد تہیئۃ طعام لہم یشبعہم یومہم ولیلتہم لقولہٖ اصنعوا لآل جعفرؓ طعاما فقد جاء ہم ما یشغلہم ، حسنہٗ الترمذی وصحح الحاکم ولأنہٗ بِرٌّ ومعروف ویلح علیہم فی الأکل لأن الحزن یمنعہم من ذلک فیضعفون الخ ۔ مطلب فی کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت وقال أیضا ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہٗ شرع فی السرور لا فی الشرور وہی بدعۃ مستقبحۃ ، وروٰی الإمام أحمد وابن ماجۃ بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰہ قال: کنا نعد الاجتماع إلٰی أہل المیت وصنعہم الطعام من النیاحۃ الخ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی