سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب!
میرا سوال یہ ہے کہ میری والدہ کی عمر 85 سال ہوگئی ہے، اب وہ روزہ نہیں رکھ سکتیں اور نہ ہی روزہ رکھنے کی امید ہے تو میں ان کی طرف سے فدیہ دینا چاہ رہا ہوں تو کیا ان کی طرف سے فدیہ دے سکتا ہوں؟
جواب: صورت مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ اتنی بوڑھی ہو چکی ہوں، یا ایسی بیمار ہوں کہ وہ روزہ نہ رکھ سکتی ہوں اور مستقبل میں ان کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہ ہو تو آپ اپنی والدہ کے روزوں کے بدلے فدیہ دے سکتی ہیں، فدیہ ادا کرنے کے بعد اگر وہ کسی وقت روزہ رکھنے پر قادر ہو جاتی ہیں، تو ان کو قضاء کرنا لازم ہوگا۔
ہر روزے کے بدلے ایک صدقہ فطر کی مقدار (تقریبا پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت) کسی مستحق زکوٰۃ کو دینے سے فدیہ ادا ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (427/2، ط: دار الفکر)
(ویفدی) وجوبا ولو فی اول الشھر وبلا تعدد فقیر کالفطرۃ لو مؤسرا۔
(قولہ للشیخ الفانی)ای الذی فنیت قوتہ أواشرف علی الفناء ولذا عرفوہ بانہ الذی کل یوم فی نقص الی ان یموت نھر۔ومثلہ مافی القھستانی عن الکرمانی: المریض اذاتحقق الیأس من الصحۃ فعلیہ الفدیۃ لکل یوم من المرض۔۔۔
(قولہ العاجزعن الصوم)ای عجزا مستمرا کما یأتی۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی