سوال:
السلام وعليكم،
جناب مفتی صاحب!
ایک اہم موضوع کے سلسلے میں آپ سے رہنمائی مطلوب ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ماہ رمضان میں سارے عالم میں لوگ صدقہ، خیرات کرتے ہیں، اکثر اوقات تو مسکینوں، یتیموں، مدارس کے طلباء اور سفید پوش خواتین وحضرات میں نقد رقم تقسیم کی جاتی ہے، جبکہ پاکستان سمیت بیشتر ممالک میں لوگ راشن پیک بھی بنوا کر تقسیم کرتے ہیں، راشن پیک کے سلسلے میں بہت وسیع پیمانے پر غلہ کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور کاروباری حضرات کافی بڑی رقم لگا کر اس میں حصہ لیتے ہیں، جبکہ لوگوں کو مزدوری، نقل وحمل کے ذرائع، دوکانوں کے کرایہ وغیرہ کی مد میں بہت سے اخراجات کیے جاتے ہیں، راشن پیک بناتے ہوئے ان اخراجات کے متناسب اور نفع کے مد کچھ رقم مختص کرکے راشن پیک کی قیمت نکالی جاتی ہے اور لوگ اپنی استطاعت اور ضرورت کے مطابق راشن پیک بنواتے اور تقسیم کرتے ہیں۔
جس پریشانی نے یہ سارا قصہ لکھنے پر آمادہ کیا، وہ یہ ہے کہ دوکاندار یا کاروباری حضرات میں سے اکثریت کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان راشن پیک پر جو رقم خرچ کی جارہی ہے، اس کی نوعیت کیا ہے، آیا وہ زکواة، خیرات، صدقات میں کی کس مد میں سے ہے؟ چونکہ کاروباری حضرات اس میں سے اپنے اخراجات بھی نکالتے ہیں، جیسا کہ اوپر درج کیا ہے اور منافع بھی کماتے ہیں۔ برائے مہربانی دین حنیف کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ جب راشن پیک بنانے والے جو رقم خرچ کررہے ہوتے ہیں، اسکی نوعیت اگر معلوم ہو یا دوسری صورت میں معلوم نہ ہو تو کاروباری یا دکاندار حضرات کا راشن پیک کی قیمت میں سے اپنے اخراجات اور منافع نکالنا اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت تو نہیں ؟
جواب: واضح رہے کہ راشن کی دکان والے کے لیے اپنے مال کو نفع کے ساتھ فروخت کرنا بلا کراہت جائز ہے، خواہ اسے یہ معلوم بھی ہو کہ یہ راشن زکوٰۃ کی مد کا ہے، کیونکہ راشن کی خریداری اور اسے مستحقین تک پہنچانے کے اخراجات زکوٰۃ ادا کرنے والے کے ذمہ ہوتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی