سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب!
تراویح میں قرآن مجید کا ختم کرنا سنت ہے، برائے مہربانی احادیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیجیے.
جزاکم اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ تراویح میں پورا قرآن کریم ختم کرنا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے صراحۃً ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی حضرت صدیق اکبر ؓ سے صراحۃً ثابت ہے، ہاں! حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ سے اس طور پر ثابت ہے کہ انہوں نے حضرت ابی بن کعبؓ کو بلایا اور ان سے فرمایا: "سب لوگ قرآن نہیں پڑھ سکتے، میں چاہتا ہوں کہ تم سب کو رمضان کی راتوں میں نماز پڑھا دیا کرو" ظاہر ہے کہ صحابہ میں سے ہر شخص قرآن کریم کی کم از کم اتنی مقدار تو یاد کیے ہوئے تھا کہ جس سے نماز ادا کی جا سکتی ہو، اس کے باوجود حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کا حضرت ابی بن کعب رضی اللّٰہ عنہ کو یہ فرمانا کہ تم رمضان کی راتوں میں لوگوں کو نماز پڑھا دیا کرو، اس سے یہی مقصد ہو سکتا تھا کہ مکمل قرآن کریم نماز تراویح میں پڑھا اور سنا جا سکے، کیونکہ تمام صحابہ کرامؓ پورے قرآن کریم کے حافظ نہیں تھے، اس لیے حضرت ابی بن کعب رضی اللّٰہ عنہ کو فرمایا گیا اور وہ قرآن کریم کے حافظ اور قاری تھے، نیز حضرت عمرؓ و حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں اتنی دیر تک تراویح ہوتی تھی کہ بعض لوگ لاٹھی کا سہارا لیتے تھے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طویل قراءت ہوا کرتی تھی، یقینا یہ طویل قراءت ختم قرآن کریم کے لیے ہو سکتی ہے، اور تراویح پڑھتے ہوئے اتنی تاخیر ہو جاتی تھی کہ سحری کا وقت فوت ہو جانے کا اندیشہ ہونے لگتا تھا، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر اتنی دیر جب ہی ہوسکتی ہے، جب امام مکمل قرآن کریم تراویح میں سنانا چاہتا ہو، اسی طرح حضرت عائشہؓ کا غلام رمضان کی راتوں میں قرآن دیکھ کر نماز پڑھاتا تھا، (یعنی نماز سے پہلے یا نماز کے بعد قرآن دیکھ لیا کرتا تھا، تاکہ نماز میں بھول نہ ہو) اور یہ بھی جب ہی ہوسکتا ہے، جبکہ ختم قرآن کا اہتمام ہو، ورنہ وہ وہی سورتیں پڑھتا جو اسے خوب یاد تھیں، یہ تمام دلائل اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام ہوتا تھا، صحابہ کے اس اہتمام سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی رمضان میں قرآن ختم کرتے ہوں گے، اگرچہ صراحۃً حدیثوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا ہے، انہی واقعات اور سلف صالحین کے اہتمام کو مد نظر رکھتے ہوئے، امام ابوحنیفہؒ نے تراویح میں ایک مرتبہ قرآن کریم ختم کرنے کو مسنون قرار دیا ہے۔
(مأخذہ: امداد الاحکام: 662/1)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی