سوال:
السلام علیکم، جناب مفتی صاحب ! اگر کوئی شخص پردیس میں ہو اور بچے پاکستان میں ہوں، تو فطرانہ کی رقم کس ملک کے اعتبار سے دے گا؟ نیز اگر کوئی شخص پردیس سے چھٹی پر آیا ہو، تو وہ اپنا اور اپنے بچوں کی فطرانہ کی ادائیگی پاکستان کے حساب سے کرے گا یا پھر جس ملک سے وہ چھٹی پر آیا ہے،اس ملک کے اعتبار سے کرے گا؟ جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ شریعت میں صدقۃ الفطر کا اصل وجوب تو اجناس کی صورت میں ہوتا ہے، یعنی گندم (پونے دو کلو)، جو، کشمش اور کھجور (ساڑھے تین کلو) کی مقدار دینا ہوتی ہے، اگر کوئی شخص اصل وجوب کے اعتبار سے صدقۃ الفطر دینا چاہے، تو مذکورہ بالا اجناس میں سے کوئی بھی جنس، اس کی مقدار کے مطابق جہاں چاہے دے سکتا ہے، اس صورت میں ان اجناس کی قیمت اور ادا کرنے والے کے مقام کو نہیں دیکھا جائے گا چاہے صدقۃ الفطر دینے والا اپنے ملک میں ہو یا بیرون ملک میں ہو۔
اور چونکہ قیمت ان اجناس کا بدل ہے، تو اگر کوئی شخص قیمت کے ذریعے صدقۃ الفطر ادا کرنا چاہتے ہیں، تو جس ملک میں وہ عید الفطر کی صبح وہ موجود ہوگا، وہاں کی قیمت کا اعتبار ہوگا، خواہ وہ قیمت اسی ملک کے مستحقین کو دیدے، یا اپنے ملک کے مستحقین کو بھیج دے۔
مذکورہ بالا حکم کے مطابق بیرون ملک مقیم شخص اپنا اور اپنی نابالغ اولاد کا صدقۃ الفطر بیرون ملک کی قیمت کے مطابق ادا کرے گا اور اس کی بیوی اور بالغ اولاد جن پر صدقۃ الفطر واجب ہو، تو وہ جہاں مقیم ہیں، وہاں کی قیمت کے اعتبار سے ادا کریں گے۔
نیز جس جگہ کے مستحقین کو صدقۃ الفطر کی قیمت دی جا رہی ہو، اگر وہاں ان اجناس کی قیمت کم بنتی ہو اور دوسرے ملک میں زیادہ بنتی ہو، تو احتیاطا زیادہ قیمت والے ملک کی قیمت لگائی جائے، تاکہ فقراء کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (355/2)
"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.
(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه".
الفتاوى الهندية: (190/1)
"ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات".
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144008202008
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 46/2280
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی