سوال:
مفتی صاحب ! میرا دوست نکاح نہیں کرنا چاہ رہا تھا، اس کے گھر والوں نے زبردستی نکاح نامہ پر اس سے دستخط کروالیے، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ نکاح منعقد ہونے کے لیے دوگواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ ایجاب و قبول کرنا ضروری ہے، زبان سے ایجاب و قبول کیے بغیر نکاح نہیں ہوتا، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر لڑکے نے صرف دستخط کیے ہوں، باقاعدہ ایجاب و قبول نہیں کیا ہو، تو صرف نکاح نامہ پر دستخظ کرنے سے یہ نکاح منعقد نہیں ہوا، لیکن اگر دستخط کے ساتھ بادلِ نخواستہ زبان سے قبول بھی کرلیا ہو، تو نکاح منعقد ہوگیا ہے، اور نکاح سے متعلق حقوق کی ادائیگی بھی لڑکے پر واجب ہوگئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (139/6، ط: دار الفكر)
نظمها ابن الهمام بقوله:
يصح مع الإكراه عتق ورجعة ... نكاح وإيلاء طلاق مفارق
وفيء ظهار واليمين ونذره ... وعفو لقتل شاب منه مفارق.
الدر المختار مع رد المحتار: (12/3، ط: دار الفکر)
(فلا ينعقد) بقبول بالفعل كقبض مهر ولابتعاط ولا بكتابة حاضر بل غائب بشرط إعلام الشهود بما في الكتاب۔
مطلب التزوج بإرسال كتاب قوله (ولا بكتابة حاضر) فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد بحر والأظهر أن يقول فقالت قبلت الخ إذ الكتابة من الطرفين بلا قول لا تكفي ولو في الغيبة تأمل۔
الفتاوی الھندیۃ: (270/1، ط: دار الفکر)
ولا ينعقد بالكتابة من الحاضرين فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد هكذا في النهر الفائق۔
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (6531/9، ط: دار الفکر)
إن كان العاقدان حاضرين معاً في مجلس العقد وكانا قادرين على النطق فلا يصح بالاتفاق الزواج بينهما بالكتابة أو الإشارة۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی